Site icon روزنامہ کشمیر لنک

لائن آف کنٹرول پر گولہ باری مقامی سیاحت، معشیت اور تعلیم کو کیسے متاثر کرتی ہے

2003ء تک آزادکشمیر کے خوبصورت سیاحتی مقام وادی نیلم اور جہلم ویلی میں آئے روز بھارتی فائرنگ کی وجہ سے سیاحت تو درکنار عام لوگوں کی زندگی بھی اجیرن تھی،فائرنگ سے کاروبارتباہ، سفر خطرناک اور انتہائی مشکل تھا۔ سابق صدر جنرل پرویزمشرف کے دور اقتدارمیں سینزفئر ہواتو لائن آف کنٹرول سے ملحقہ علاقوں کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ تاہم بھارتی فورسز کی جانب سے آئے روز کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی کے باعث ان علاقوں میں غیریقینی صورتحال برقرار رہی۔ بالاآخر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھارت کے ساتھ مذکرات کے بعد سیز فائر کا معاہدہ ہوا۔ آزادومقبوضہ کشمیر کے لوگوں کوریاست کے دونوں جانب آسان شرائط پر سفر کی اجازت مل گئی اور یوں وادی نیلم اور جہلم ویلی میں سیاحت کا آغاز ہوا۔

مقامی لوگوں نے بڑے پیمانے پر ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسز اور دیگر مختلف نوعیت کے کارونار کا آغاز کردیا۔ سیز فائر کے بعد سیاحوں کی ایک بڑی تعداد نے آزادکشمیر کا رخ کیا۔محکمہ سیاحت آزاد کشمیر کے ترجمان کے مطابق 2017 ء سے 2018 ء کے دوران 1.200ملین سیاحوں نے تفریح کی غرض سے آزاد کشمیر کا رخ کیا جس سے8.485 ملین روپے کی آمدن ہوئی جبکہ 2018ء سے 2019ء کے دوران 1.4سیاح آزاد کشمیر آئے۔ 2018ء سے 2019ء کے دوران 11.275ملین روپے کی آمدن ہوئی اگر پچھلے پانچ سال کا جائز لیا جائے تو 2018ء سے2019ء کے دوران ریاست میں سیاحتی شعبہ سے وابستہ افراد کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔سال 2019سے 2020کے دوران 0.650سیاح آئے اور4.781 ملین روپے کی آمدن ہوئی۔

2019اور2020کے دوران کوروناکے باعث دنیا بھر کی طرح آزاد کشمیر میں بھی سیاحت کو بری طرح نقصان ہوا اور یہی وجہ کے کہ گزشتہ چند سال کی نسبت بہت کم تعداد میں سیاخوں نے آزاد کشمیر کا رخ کیا۔ جبکہ 2020سے 2021کے دوران 0.357 سیاح آئے اور 8.077 کا مالی فائدہ ہوا۔ 2021میں 0.365 سیاح آزاد کشمیر آئے جس سے8.920 کی آمدن ہوئی۔

نیلم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کہتی ہیں شوہر کی وفات کے بعد تین بچوں کی پرورش اور ان کی پڑھائی لکھائی بہت مشکل کام تھا میں اکیلی عورت تھی اور مالی حالات بہت خراب تھے میرے لیے زندگی گزارنا اور بچوں کو کھانا تک فراہم کرنا مشکل ہو چکا تھا میں نے ادھار پیسے لے کر اپنے گھر میں سبزیاں اگانا شروع کی اور کچھ مرغیاں بھی رکھی لیں سبزیاں اور مرغیوں کے انڈے ہوٹل پر جا کر دیتی تھی جس سے ملنے والے پیسوں سے میں گزار بسر کرتی رہی ایک سال بعد میں نے کچھ پیسوں سے مشین لی اور گھر میں سلائی کڑھائی کا کم بھی شروع کر لیا میں ہاتھ سے بنائی ہوئی جرابیں اور سویڑز دوردراز کے علاقوں سے آنے والے سیاخوں کو فروخت کر دیتی تھی اب میرا بڑا بیٹا ایف اے کا طالب علم ہے۔

خاتون کہتی ہیں کہ اگر اس وقت میں یہ فیصلہ نہ کرتی تو میں اپنے بچوں کو کھانا تک نہ مہیا کر سکتی گزشتہ چند سال کے دوران سیاخوں کی بڑی تعداد یہاں آئی جس سے میری طرح کے اور بھی لوگوں کو روزگار میسر آیا ہے اختر نے مزید کہا کہ اگر حکومت گھریلو سطح پر کام کرنے کے لیے چھوٹے قرضہ اور مالی معاونت عطا کرے تو یہاں کہ لوگ سیاحت کی بدولت نہ صرف مالی طور پر مستحکم ہوں گے بلکہ بڑے پیمانے پہ لوگوں کو روزگار بھی میسر آئے گا۔ آزاد کشمیر میں تفریخی کے لیے اسلام آباد سے آئے ایک سیاح کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر واقعی ایک جنت نظیر وادی ہے مگر یہاں پر سیاخوں کے لیے سہولیت کا فقدان ہے مختلف ایسے مقامات ہیں جہاں سیاخوں کے لیے معیاری کھانے پینے اور رہنے کے لیے کو انتظام نہیں اور نہ ہی ریسٹ ایریا،واش رومز کی سہولت موجود ہے۔

محکمہ سیاحت کے ترجمان کے مطابق آزاد کشمیر میں ٹورازم پوٹینشل موجود ہے جس سے استفادہ کیا جارہا ہے اس وقت آزاد کشمیر میں 380نئے ہوٹلز،30نئے پیڑول پمپ،100نئی ٹائرز کی دکانیں سو نئی ٹک شاپس،100نئی پولڑی کی دکانیں،1000ٹورایسٹ پوانٹ،50ٹوراپریٹر گائیڈز 500 ایگری ٹورازم فیملز،سمیت واٹر سپورٹس ایدوینچرٹورازم میں اضافہ ہواجن سے،8540لوگوں کو روزگار میسر آیاہے۔محکمہ سیاحت کے ترجمان نے بتایا کہ سال2021-2022 کا ترقیاتی بجٹ 400.000ملین ہے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت 8 مختلف منصوبہ جات پر کام جاری ہے جن میں لال قلعہ سرفہرست شامل ہے۔

کشمیر ٹور اینڈ ٹریول سے تعلق رکھنے والے عثمان پیرزادہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران آزاد کشمیر میں سیاحت کے شعبہ کو فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھائے گے ہیں جن میں کوہالہ تا مظفرآباد روڈ بنائی گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ نیلم کے اندر روڈ کو بہتر کیا گیا ہے جس سے سیاحت کا خطہ کشمیر میں انڈسٹری بن کر ابھر رہی ہے۔عثمان نے سیاحت کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے بتایا کہ سیاحت کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ایل اوسی پر کشدیگی ہے جس کے باعث لوگوں کا روزگار متاثر ہوتا ہے اس کا مستقل حل بے حد ضروری ہے دوسرا بہتر روڈ انفراسٹرکچر کا نہ ہونا ہے اگر حکومت اس جانب توجہ دے تو ریاست کے معاشی حالات بہتر ہونے کے ساتھ بے روزگاری کے خاتمہ میں بھی مدد ملے گی۔

عثمان پیرزادہ نے مزید بتایا کہ آزاد کشمیر میں سیاحوں کی آمد ورفت سے لوکل کلچر مقامی کھیلوں سمیت دیگر نجی صنتعوں کو فروغ ملا ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت تقریبا پچاس ہزار لوگوں کا روزگار میسر آیا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے بلا سود قرضے دیے روڈ انفراسٹکچر بہتر کیا جائے، انٹرنیشنل ٹورازم کو فروغ دے ایڈوینچر ٹورازم کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں اور سیاحت کے شعبہ سے وابستہ لوگوں کی پروفیشنل ٹرینگ کے لیے مواقع فرایم کیے جائیں اگر حکومت آزاد کشمیر اور خاص طور پر محکمہ سیاحت اس جانب توجہ دے تو ریاست خود کفیل ہو سکتی ہے۔

Exit mobile version