Site icon روزنامہ کشمیر لنک

کیا واقعی مظفرآباد شہر تباہی کے دہانے پر ہے؟

مظفرآباد شہر تباہی کے دہانے پر

تحریر: ابرار حیدر، صحافی، مظفرآباد

گریٹ ہمالیہ اور پیر پنجال کے دامن میں فطرت انسانی کی تسکین کا سامان لیے ایک اہم شہر واقع ہے جو زمانہ قدیم سے حملہ آوروں، تجارتی قافلوں، مذہبی راہنماﺅں ریشی سنت ، سادھوؤں اور اولیاءاللہ کی گزرگاہ رہا ہے، اور جسے اولین تاریخ میں اڈا بانڈا لکھا گیا اور اب مظفرآباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔

وادی کشمیر میں کامبو جاس، بدھ ازم، شیو ازم، ہندو ازم اور دورِ اسلامی سمیت جتنے بھی ادوار گزرے، اس شہر پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ انٹرنیشنل سٹی مینیجمنٹ ایسوسی ایشن کی شائع کردہ کتاب The practice of Local Government Planning میں مظفرآباد کی جغرافیائی علاقائی وسعت اور اہمیت کے تناظر میں اسے گیٹ وے قرار دیا گیا۔

مظفرآباد کوہالہ سے پنجاب، برارکوٹ سے خیبر پختونخواہ، چکوٹھی لائن آف کنٹرول سے سرینگر، اور سرینگر سے جموں امرتسر اور دلی کو ملانے کا ذریعہ ہے، تاہم یہاں کی تہذیب و ثقافت میں ہزارہ پوٹھوہار کے رنگ نمایاں اور پہاڑی کلچر صدیوں سے مظفرآباد کی پہچان بنا ہوا ہے۔ وادیء کشمیر کا دروازہ ہونے کی وجہ سے باہر سے آنے والا ہر مذہب، ثقافت، اور تہذیب اسی راستے سے سری نگر پہنچی۔ انتہائی عروج کے بعد انتہائی زوال بھی اسی شہر کی قسمت میں تھا۔ صدیوں تک انسانیت کو دامن میں سمونے والے مظفرآباد کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ سینکڑوں برس قبل ٹانڈا فالٹ لائن ایکٹو ہونے کی وجہ سے پہاڑوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی جس کی وجہ سے چند سو یا چند ہزار کی آبادی آن واحد میں 2005 کے زلزلے کی طرح لقمہء اجل بن گئی ہوگی۔

اس ہولناک سانحے کے بعد یہ علاقہ مدتوں انسانی آبادی سے محروم رہا۔ شہروں دیہی علاقوں اور قصبوں میں رہنے والے خاندان صدیوں سے گرمی کے موسم میں بلند و بالا مقامات جنہیں ‘بہک’ کہا جاتا ہے، اپنے مویشیوں سمیت رخ کرتے ہیں۔ مظفرآباد کو چکڑی (کیچڑ والی) بہک کا نام دیا گیا جو صدیوں تک قائم رہا اور اس کی پسماندگی کا ثبوت تھا۔

2005 کے زلزلے میں پہاڑی سلسلوں پر ناقص تعمیرات کے باعث ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور لاکھوں معذور و بے گھر ہوئے۔ جہاں ایثار و قربانی کی داستانیں رقم ہوئیں تو وہیں خود غرضی اور نفسا نفسی پر مبنی نئی تہذیب نے بھی جنم لیا۔ جنرل پرویز مشرف کی عالمی ساکھ و مساعی جمیلہ سے یہ شہر پہلے سے بھی بہترین انداز میں آباد ہوا، مگر آزاد خطے کی حکومتوں نے شہر کو جدید انداز میں نہ بنانے اور زلزلہ پروف عمارتیں نہ بنوانے، فالٹ لائن پر رہائشی و کمرشل پلازوں کی تعمیر نہ روک کر ایک مرتبہ پھر لاکھوں زندگیوں کو موت کی دہلیز پر چھوڑ دیا ہے۔

حسین شہر کی تقریبآ تمام ہی تعمیرات بے ہنگم ہیں۔ اس کی موجودہ آبادی دیکھ کر تصور کرنا مشکل ہے کہ 2005 میں یہاں کتنی تباہی آئی تھی. —
ہمالین فرنٹل تھرسٹ (ٹانڈا فالٹ) اور مین باؤنڈری تھرسٹ (جہلم فالٹ) پر موجود مظفرآباد شہر جب 2005 کے ہولناک زلزلے میں تباہ ہوا تو جاپان بین الاقوامی تعاون کے ادارے (JICA) نے دو سالوں کی انتھک محنت و ریاضت سے ایک رپورٹ مرتب کی جو ادارے کے نائب صدر کی جانب سے مرکزی و آزاد حکومت کے ذمہ داران کو پیش کی گئی۔

اس اسٹڈی میں مظفرآباد کو درپیش خطرات اور تدارک کی ممکنہ تجاویز پیش کی گئیں۔ جائیکا نے پرانا شہر ڈھیریاں، طارق آباد، چہلہ بانڈی، ماکڑی، میرا تنولیاں، اور رنجاٹہ سمیت متعدد علاقے ناقابل رہائش قرار دیے۔ جائیکا کا مؤقف ہے کہ یہ زمین آبادی برداشت کرنے کے لائق نہیں۔ مزید برآں شہر کے اردگرد موجود ڈھلوانوں پر ہر طرح کی تعمیرات سے منع کیا۔

جائیکا نے لینڈ سلائیڈنگ کے شدید خطرے کے ممکنہ 18 مقامات کی نشاندہی بھی کی، جن پر بسنے والے انسانوں اور قائم جائیدادوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور قرار دیا کہ پہاڑوں کی توڑ پھوڑ سے بجری بن رہی ہے، اس مٹی کے تودوں اور زمین ٹوٹنے کے باعث شہری آبادی میں آنے والے ملبے کو روکنے کی لیے چک ڈیم بنائے جائیں۔ جائیکا نے تعمیر نو کے لیے ماسٹر پلان مرتب کیا اور حکومت کو تجویز پیش کی کہ انتہائی خطرناک علاقوں کو آبادی سے مکمل طور پر خالی کروا کے متعلقہ مقامات کو کھلا چھوڑا جائے، شہر میں پارکس کا جال بچھایا جائے اور شجر کاری بھی کی جائے۔ جائیکا نے قرار دیا ہے کہ کسی بھی وقت کبھی ختم نہ ہونے والی خشک لینڈ سلائیڈنگ دریائے نیلم کو روک دے گی لہٰذا ممکنہ سیلاب کی روک تھام کا اہتمام کیا جائے، شہر کی بڑی تعداد میں آبادی میونسپل کارپوریشن کی حدود سے باہر منتقل کی جائے۔

دریا کے دہانے پر قائم گھر ذرا سے جھٹکے سے پھسل سکتے ہیں. چٹانوں کے کناروں تک کو بھی تعمیرات کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مگر آزاد کشمیر میں یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی کوئی بھی حکومت جائیکا کی سٹڈی کو خاطر میں نہیں لائی۔ جائیکا نے ماسٹر پلان میں گلی، سڑک کی چوڑائی سے لے کر تعمیراتی کوڈ تک بتایا مگر مجال ہے جو جائیکا کی تجاویز پر عملدرآمد ہوا ہو۔ جائیکا نے جن مقامات سے آبادی کی منتقلی کا زور دیا وہاں نئی اور گنجان آبادیاں بن چکی ہیں۔ بجری مٹی کے تودے روکنے کے لیے چک ڈیم بنانا تو درکنار، صدیوں سے بہنے والے ندی نالوں میں گھر اور دکانیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔

میونپسل کارپوریشن اور شہری ترقیاتی ادارے کی نااہلی کی وجہ سے مظفرآباد شہر کے لیے یہ نیا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے لنگر پورہ، ٹھوٹھہ کے مقامات پر 300 ایکڑ زمین تو بین الاقوامی امدادی اداروں اور حکومت پاکستان کے مالی تعاون سے خرید رکھی ہے مگر دس برس گزرنے کے باوجود ایک انچ زمین متاثرہ خاندانوں کو نہیں دی اور نہ ہی انتہائی خطرناک علاقوں میں موجود آبادی کو منتقل کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا۔

جائیکا کی تجویز کے مطابق انتہائی خطرناک جگہیں خالی نہیں کروائی گئیں اور نہ ہی کوئی پارک بنایا گیا۔ خطرناک مقامات اور ندی، نالوں اور ڈھلوانوں پر موجود سینکڑوں گھر اور کاروباری مراکز کسی بھی لمحے لینڈ سلائیڈنگ یا زلزلے کی وجہ سے زمین میں دھنس سکتے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر اموات کا خدشہ ہے۔

عالمی سطح پر جانے جانے والے آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر رستم خان جو 2005 سے قبل بھی خطرات سے آگاہ کر چکے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈین پلیٹ 780 ملین سال قبل افریقی پلیٹ سے الگ ہو کر رشین پلیٹ سے جڑی ہے، اس پلیٹ کے سامنے کے حصے ٹوٹ کر اوپر آئے ہیں۔ ایک فالٹ لائن برما سے آسام، نیپال، اور شمالی ہندوستان سے کشمیر اور شمالی پاکستان پوٹھوہار، اٹک سے ہوتی ہوئی افغانستان جا رہی ہے اور یہ ایکٹو ہے۔

ڈاکٹر رستم خان کے مطابق مظفرآباد اور اس سے ملحقہ علاقے 30 کلومیٹر چوڑی اور 100 کلومیٹر لمبی پٹی پر واقع ہیں اور اس پٹی میں توڑ پھوڑ کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ اس پٹی پر کریکس ہیں اور اس میں ڈولومائیٹ نامی دھات ہے جو جب پانی کے ساتھ ملتی ہے، تو ری ایکشن میں پہاڑی پتھر ٹوٹتے ہیں۔ مظفرآباد، باغ، نوسیری، اور بالاکوٹ عباسیاں تک جو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں، یہ اس کی وجہ سے ہی ہے۔ جائیکا نے جن جگہوں کو خطرناک قرار دیا تھا، عمارات وہاں پر بھی تعمیر کی گئی۔ انتہائی خطرناک علاقوں کو خالی کروانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا. آبادیاں ان جگہوں پر بھی قائم ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ کے خطرے سے دوچار ہیں.۔

تاریخی اعتبار سے ہمالیہ میں سو سال کے اندر بڑا زلزلہ آیا ہے۔ جموں میں 1905 میں زلزلہ آیا تھا اور مظفرآباد 2005 میں تباہ ہوا۔ سری نگر میں سو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مگر بڑا زلزلہ نہیں آیا۔ عالمی ماہرین جو زلزلے کی پیشن گوئی کر رہے ہیں، وہ تاریخ کے تناظر میں کر رہے ہیں، چونکہ اس خطے میں ایسا ہمیشہ ہوتا آرہا ہے۔

ڈاکٹر رستم خان کا مزید کہنا ہے کہ پلیٹ کی حرکت اور چٹانیں ٹوٹنے سے زلزلے آتے ہیں اور انرجی خارج ہوتی ہے مگر مظفرآباد فالٹ کی تباہی کے لیے زلزلے کی ضرورت نہیں، اگر زیادہ بارشیں ہوں گی تو ڈولومائیٹ کی وجہ سے ردعمل میں پہاڑ تیزی سے ٹوٹیں گے اور لینڈ سلائیڈنگ ہوگی جو شہر کو بہا کر دریائے نیلم میں لے جائے گی، اور جب یہ ڈیم ٹوٹے گا تو پنجاب تک تباہی ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1977 سے پہلے کوئی پتھر ریزہ ریزہ نہیں تھا اور چٹانیں ہی چٹانیں تھیں، پھر بھی چہلہ کے مقام پر خشک سلائیڈ آئی جو کئی دن چلتی رہی اور نیلم دریا بند ہو۔ اب تو مظفرآباد کے گرد و نواح کے پہاڑ بجری بن چکے ہیں۔

یہ بجری نالوں کے ذریعہ شہر میں آرہی ہے کسی بھی زلزلے یا لینڈ سلائیڈنگ کے باعث یہ ہنستا بستا شہر اور سو کلومیٹر کی پٹی جس میں لاکھوں لوگ بستے ہیں، ایک بار پھر تباہی کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ آزاد کشمیر اور مظفرآباد میں تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی تعداد مقیم ہے مگر کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ وہ جغرافیائی طور پر کس قدر خطرناک مقام پر رہائش پذیر ہیں۔ 2005 کا زلزلہ ایک واحد واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایسا ماضی میں بار بار ہوتا رہا ہے، اور اب کی بار مزید شدت سے ہونے کا امکان ہے۔

اگر ہمارے حکام عالمی اداروں اور سائنسدانوں کی واضح نشاندہی کے باوجود آنکھیں نہیں کھولیں گے تو خدانخواستہ اس کا نتیجہ ہزاروں لوگوں کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

Exit mobile version