Site icon روزنامہ کشمیر لنک

ایبٹ آباد کے چنار کٹ رہے ہیں

ایبٹ آباد کے چنار کٹ رہے ہیں

عامر لیاقت نکاح سیریز ٹرینڈِنگ کی وجہ سے غالباً زیادہ تر خواتین و حضرات کو پتا نہیں چلا ہو گا کہ دو تین دن قبل ایبٹ آباد میں کیا ہوا ہے۔ ظالموں نے ایبٹ آباد کی دنیا بھر میں مشہور سڑک “چنار روڈ” کے بہت سے درخت کاٹ ڈالے ہیں۔ جب بھی آپ انٹرنیٹ پر ایبٹ آباد کو سرچ کرتے ہیں تو پہچان کے طور پر سرخ یا ہرے یا برف سفید چنار سامنے آ جاتے ہیں۔ اگر کٹائی کا سلسلہ مستقل طور پر نہ روکا گیا تو ایبٹ آباد کا حُسن خراب ہو جائے گا۔ فی الحال، سلام ہے ایبٹ آباد کے رہائشیوں کو جنہوں نے شُودر عوام ہونے کے باوجود کٹائی کا عمل وقتی طور پر رکوا دیا ہے…. مگر آخر کب تک!!

اور سلام ہے ایبٹ آباد کے اُن مقامیوں پر جو چنار کٹنے کے بعد میڈیا پر آ کر باقاعدہ آنسُو بہاتے رہے۔

چونکہ چنار روڈ کینٹونمنٹ بورڈ میں ہے جہاں کاکول ملٹری اکیڈمی بھی ہے اس لیے ہم کسی ادارے پر براہِ راست بات نہیں کر سکتے۔ صرف ظلم پر رو پیٹ سکتے ہیں۔ چاہے کینٹونمنٹ بورڈ ایریا میں اسامہ بن لادن دریافت ہو یا جنوبی پنجاب میں آم کے باغات کاٹے جا رہے ہوں، ہم صرف ظلم پر بات کریں گے۔ مزید کچھ نہیں۔

ظاہر ہے فیس بُک کا الگورتھم ایسا ہے کہ جو خبر ٹرینڈ میں ہو وہی آپ کی ٹائم لائن پر چھائی رہتی ہے اور باقی خبریں صریحاً اگنور ہو جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ الگورتھم فیس بک کو ملٹی بلیئن ایر بنا چکا ہے مگر دنیا خطرے میں پڑ رہی ہے کیونکہ سنجیدہ خبریں لوگوں کے نوٹس میں نہیں آ پا رہیں۔ سنجیدہ خبر سے مراد وہ خبر ہوتی ہے جو سنجیدہ ہو۔ کوئی خبر لازمی نہیں کہ سنجیدہ ہو جسے لوگ سنجیدہ لے رہے ہوں۔ تعلیم و تربیت کا یہی مطلب ہے کہ لوگوں کو تلقین کر کے بتایا جائے کہ کونسی خبر سنجیدہ ہے۔

آئیے ماتم شروع کرتے ہیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بھوٹان کے وزیراعظم نے اپنی سالگرہ کے موقع پر قوم کو پیغام دیا کہ اُنہیں برتھ ڈے گفٹ کے طور پر ہر بھوٹانی سے دو چیزیں درکار ہیں: اول، آوارہ کُتوں کو پالنا شروع کر دیں۔ دوم، میرے نام کا ایک ایک درخت لگا دیں۔ کاش ہم میں بھی ایسا ذوق ہو۔

خبر ملی ہے کہ بدقسمتی سے ایبٹ آباد میں گنے چنے درختوں کو بھی ایک منصوبہ کے تحت کاٹنے کا عمل جاری ہے۔ 10 فروری کو آمنہ سردار سابق رکن خیبر پختونخوا اسمبلی آمنہ سردار کی قیادت میں چنار روڈ پر ڈیڑھ سو سال قدیم درخت کاٹنے پر احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ اس موقع پر امیدوار برائے تحصیل چیئرمین اسد جاوید اور مختلف سماجی تنظیموں کے قائدین سیاسی و سماجی شخصیات خواتین اور بچے بھی شریک تھے۔ سردار ہاؤس سے چنار روڈ تک نکالی جانے والی احتجاجی ریلی میں کینٹ بورڈ ایبٹ آباد کی جانب سے قدیمی درختوں کی کٹائی پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔

احتجاجی ریلی میں سابق ایم پی اے آمنہ سردار کا کہنا تھا ایبٹ آباد لاوارث نہیں ہے جو بھی آئے اور اپنی منشا پوری کرے۔ ایبٹ آباد کی پہچان اور اس کی خوبصورتی انہی چناروں سے ہے۔ کینٹ بورڈ نے محکمہ جنگلات کی مدد سے ان درختوں کے ساتھ ساتھ شہر کے باسیوں کے دل چھلنی کئے ہیں جس کا حساب ضرور لیں گے۔ آمنہ سردار کا کہنا تھا کہ درخت انسانی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ بدقسمتی سے گنے چنے درختوں کو بھی ایک منصوبہ کے تحت کاٹنے کا عمل جاری ہے۔ آمنہ سردار کا کہنا تھا چنار روڈ ایبٹ آباد شہر کی خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ان درختوں کے ساتھ خوبصورتی کے نام پر پختہ تعمیر کر کے ان کی زندگی کم کرنے کی گھناؤنی سازش ہے جس سے درخت دن بدن سوکھنے کے عمل کی جانب گامزن ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چنار کے درختوں کی کٹائی کی مذمت کرتے ہیں کاٹے گئے درختوں کے متبادل فوری چنار کے درخت بھی لگائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ایبٹ آباد شہر کو لاوارث سمجھ کر سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے لیکن وہ جان لیں ایبٹ آباد کے وارث موجود ہیں۔ مقررین کا کہنا تھا کینٹ بورڈ کے اقدام پر انکوائری کر کے اصل حقائق سامنے لائے جائیں اور پورٹل پر شکایت کرنے والے کو سامنے لائیں۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر سے بھی چنار کے درختوں کے اطراف میں پختہ سیمنٹ کو اکھاڑنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ احتجاجی ریلی میں بچوں نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی، شرکاء نے پلے کارڈ اور بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر مذمتی نعرے بھی درج تھے۔

واضح رہے کہ جمعرات کے روز محکمہ جنگلات کی نشاندہی پر ایبٹ آباد چنار روڈ پر پانچ درختوں کو بوسیدہ ظاہر کر کے ان کی نیلامی کا ٹینڈر جاری کر کے کٹائی کی جا رہی تھی جس پر عوام کی جانب سے سخت ردعمل کے بعد ایک درخت کو مکمل کاٹنے اور دوسرے کو ادھورا چھوڑا گیا ہے۔ محکمہ کی جانب سے ان درختوں کی کٹائی کے لئے وزیراعظم پورٹل پر شکایت کو جواز بنایا گیا ہے جب کہ موقع پر درخت ہرے بھرے تھے۔
••••

”کھلا خط…“
چنار کے قاتلوں کے نام…
از سہیل عمران
١١ فروری ٢٠٢٢
اجڑے چناروں کا شہر
ایبٹ آباد

پرندے اب بھی چناروں کے کٹے ہوۓ تنوں پہ افسردہ بیٹھے ہیں۔ چناروں کی خوں آلود بے بس شاخیں زمین پہ پڑی سسک رہی ہیں۔ محبت کا استعارہ سمجھے جانے والے چناروں کے زرد پتے بے حس قدموں تلے روندھے جا چکے ہیں۔ لیکن زرد پتوں کی محبت کے یہ اسیر پرندے اب بھی ہجرت نہیں کرتے۔ وه صبح سے اپنے اجڑے ہوۓ آشیانوں کی خس و خاشاک’ زمین بوسیدہ چناروں کی آغوش میں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ ان پرندوں کے اشک ابھی خشک نہیں ہوۓ۔ گریہ زاری کی صدائیں آسمانوں تک پہنچ رہی ہیں۔

پروین شاکر نے شاید کوئی ایسا ہی دل گداز منظر دیکھ کر کہا ہو گا:
‎‏
ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺟﻮ ﺍﯾﻨﺪﮬﻦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﭧ ﮐﮯ ﮔﺮﺍ ﮨﮯ
ﭼﮍﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﺍ ﭘﯿﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﺍُﺱ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺷﺠﺮ ﺳﮯ

ﻣﺤﻨﺖ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﺪﮬﯽ ﺳﮯ ﺗﻮﻣﻨﺴﻮﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ
ﺭﮨﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺑﻂ ﺷﺠﺮ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺛﻤﺮ ﺳﮯ

ﻧﮑﻠﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺷﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﯽ
ﺳﻮﺭﺝ ﺑﮭﯽ ﻣﮕﺮ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﺱ ﺭﺍﮦ ﮔﺰﺭ ﺳﮯ

ﻣﺸﮑﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻠﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ
ﺩﺳﺘﺎﺭ ﭘﮧ ﺑﺎﺕ ﺁ ﮔﺌﯽ’ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺳﺮ ﺳﮯ

میرے شہر کے چناروں کے سفاک قاتلو سنو !

چنار کے ایک معصوم سے پودے کو تناور، جلالی، قدآور اور حسین درخت بننے میں کم از کم ایک صدی کا طویل عرصہ در کار ہوتا ہے۔ چنار روڈ جو ایبٹ شہر کے ماتھے کا جھومر سمجھا جاتا ہے اس کا حسن ان فلک شگاف چناروں کے مرہون منت تھا۔ اس شہر کا کوئی باسی جب یہاں سے گزرتا تھا تو اس کے قدم خود بخود تھم جاتے تھے۔ ایک سحر انگیز منظر اس کو اپنی گرفت میں جھگڑ لیتا تھا۔ سانسیں چناروں کی خوشبو سے مہک جاتی تھیں۔ باہر سے آئے ہوۓ مہمان بھی اس منظر کی کشش سے بچ نہیں پاتے تھے۔ ہر کوئی اس نظارے سے اپنے ذوق جمال کا دامن بھرتا تھا ۔پت جھڑ کی کسی حسین شام میں چناروں کے سوکھے ہوۓ خشک پتوں کی سرسرائٹ سے تو روح بھی بھیگ جاتی تھی۔

میرے شہر کے چناروں کے سفاک قاتلو !

کیا تمہیں ایک شاعر کی گواہی کا بھی یقین نہ آیا۔ غور سے سنو! کیا اس شہر کے حسن پہ لکھی ہوئی احمد فراز کی اس نظم کا ایک ایک لفظ ان چناروں کے تقدس کی گواہی نہیں دے رہا؟

ایبٹ آباد (احمد فراز )

ابھی تلک ہے نظر میں وہ شہرِ سبزہ و گل
جہاں گھٹائیں سرِ رہگزار جھومتی ہیں
جہاں ستارے اترتے ہیں جگنوؤں کی طرح
جہاں پہاڑوں کی قوسیں فلک کو چومتی ہیں
تمام رات جہاں چاندنی کی خوشبوئیں
چنار و سرو کی پرچھائیوں میں گھومتی ہیں

ابھی تلک ہیں تصور میں وہ در و دیوار
بسیطِ دامنِ کہسار میں چناروں تلے
میں لوٹ آیا ہوں اس شہرِ سبزہ و گل سے
مگر حیات انہیں ساعتوں پہ مرتی ہے
مجھے یقیں ہے گھنے بادلوں کے سائے میں
وہ زلف اب بھی مِری یاد میں بکھرتی ہے

میرے شہر کے چناروں کے سفاک قاتلو سنو !

سال 1849 میں جب پہلی بار ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ جیمزایبٹ نے اس شہر میں قدم رکھا تو وه بھی اس شہر کے سبزہ و گل کی تاب نہ لا سکا تھا۔ اِس کے حسن کا دیوانہ بن گیا تھا۔ چناروں کے شہر سے بچھڑتے وقت اس کی آنکھیں بھی اشک بار تھیں۔

وه تو تمارا پیشرو تھا اس کے نام سے تو اب بھی یہ شہر منسوب ہے۔ لیکن افسوس تم تو اس کے نام کی آبرو بھی نہ رکھ سکے۔ اُس دور کی تعمیر کی ہوئی کتنی ہی صدیوں پرانی تاریخی عمارات اب تک تماری نام نہاد ترقی اور منصوبہ بندی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ شاید تمیں بھی یاد ہو اسی شہر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے سویلین کیلئے ایک باغ بھی بنایا تھا جس کا نام کمپنی باغ رکھا تھا۔ آج تماری دست درازی سے وه باغ بھی اپنا نام و نشان کھو بیٹھا ہے۔ اور تو اور کینٹ کے دل میں بابو ایشر داس کا تاریخی پیلس ہوٹل کا ملبہ بھی تماری خود ساختہ ترقی کا منہ چڑھا رہا ہے۔

میرے شہر کے چناروں کے سفاک قاتلو سنو !

اس پرامن شہر میں اب صرف چند ہی تاریخی ورثے تماری پراگندہ جدیدیت کے معیار سے بچ پائے ہیں۔ اور وه بھی ہر آن تماری دست اندازی کے خوف سے اب سہمے رہتے ہیں۔ اس شہر میں ایک کلیسا بھی ہے، مندر بھی ہے اور ایک تاریخی مسجد بھی، یہ سب ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں لیکن صدیوں سے برداشت اور امن کا مینار بنے ہوۓ ہیں۔ صد شکر کہ ابھی تک تمہاری نام نہاد ترقی کی نظر بد سے بچے ہوۓ ہیں۔

میرے شہر کے چناروں کے سفاک قاتلو سنو !

اس شہر کا ہر باسی چنار کو اپنی پہچان اور شان سمجھتا ہے۔ تمھاری اس سفاكی پہ آج ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ان چناروں سے محبت کرنے والے عام شہری، ماحول شناس دوست، اہل زوق ارباب اورماہرینِ ماحولیات یکساں طور پر اس صورتِ حال سے حیراں و پریشان ہیں۔ سینکڑوں سیاح جو صرف موسمِ خزاں میں ان چناروں کے پتوں کے بدلتے ہوئے رنگ ‘جیسے پیڑ میں اگ لگی ہو، کو دیکھنے آتے ہیں۔ آج وه سب بھی صدمے سے دو چار ہیں۔

میرے شہر کے چناروں کے سفاک قاتلو سنو !

تم نے صرف چناروں کا خوں نہیں بہایا، تم نے صرف پرندوں کے آشیانے تہ خاک نہیں کیے، تم نے صرف اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ان وفا شعار چناروں کو نہیں گرايا۔ تم تخیل کے حسین خوابوں کے بھی قاتل ہو، تم ذوق جمال کی تسکین کے نظاروں کے بھی قاتل ہو۔ تمھاری ہر دلیل پہ تھو، تمہاری ایسی منصوبہ بندی پہ لعنت۔ تمھارے ذہنی میعار پہ تف۔

شاید تمارے پیٹ کی آگ تو ان چناروں کے سلگنے سے ٹھنڈی ہو جائے گی۔ لیکن یاد رکھنا ان کٹے ہوۓ چناروں پر بیٹھے ہوۓ اداس پرندوں سے اس شہر کے ہر باشعور باسی نے آج ایک عہد لیا ہے۔ جو اس شہر کے حسن کا دامن چاک کرے گا، اس کا گریبان بھی اب سلامت نہیں بچے گا۔

’’دستور‘‘ ( زہرہ نگاہ )

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں‌کرتا
سنا ہے جب
کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں‌اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں‌
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر
کوے کے انڈوں کو پروں ‌سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گر ے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آ جائے
کوئی پُل ٹوٹ جائے تو
کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری ، سانپ ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

خداوندِ جلیل و معتبر ، دانا و بینا منصف و اکبر
ہمارے شہر میں اب جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر !!
•••

آخرکار ایبٹ آبادیوں کے ماتم اور رونے دھونے کے بعد افسرانِ بالا کے سر پر ایک آدھ جُوں رِینگ ہی گئی۔

”وائس چیرمین کنٹونمنٹ بورڈ ایبٹ آباد فواد جدون نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ ٹینڈر مجھ سے پہلے ہوا تھا۔ میرے علم میں نہیں تھا۔ کافی اخباروں میں اشتہار دیے گے تھے۔ اور پورٹل پہ بھی ان درختوں کی کمپلینٹ کی گئیکہ سوکھ گے ہیں اور کسی بھی وقت جان لیوا ثابت پو سکتے ہیں۔ لیکن میں اس کو نہیں دیکھ سکا۔ یہ میری نالائقی ہے کہ مجھے اس کا علم آج ہی ہوا۔ چنار ہی ہماری پہچان ہیں۔ انشااللہ کام بھی رکوا دیا ہے اور خود جا کے لوگوں کی مشاورت سے جو درخت کٹ گئے ہیں ان کی جگہ نیا چنار کا درخت لگاوں گا۔ اور کسی کو اجازت نہیں دونگا کہ وہ ہمارے ایبٹ آباد کی خوب صورتی کو تباہ کریں۔“

امید ہے وائس چیئرمین صاحب کے بعد اگلے وائس چیئرمین صاحب چناروں کو نہ کاٹ ڈالیں گے۔ آمین۔
••••

جب ابھی-نندن کا جہاز ہمارے درختوں پر گرا تھا تو اس سلسلے میں مَیں نے لکھا تھا:

زہر لگ رہے ہیں وہ بدنصیب اور بے حِس لوگ جو اِس بات پر ہنس رہے ہیں کہ بھارتی اُڈن جوگے طیارے چند درخت مار کر واپس چلے گئے..

ظاہر ہے وہ کمینے اِس لیے ہنس رہے ہیں کیونکہ بھارتی ایرفورس کے طیارے ہماری مستعدی ایرفورس کی وجہ سے انسانوں کو نہ مار سکے اور واپس دڑکی لگاتے ہوئے اپنے فیول ٹینکس گرا گئے تاکہ جُست لگا کر فرار ہو سکیں۔ درخت تو ایویں زد میں آ گئے تھے، مگر درختوں کا کیا ذکر کرنا..

کوئی جگت مارتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ کُنڈی کھٹکا کر دَوڑ گئے۔ کچھ کہہ رہے ہیں کہ شعیب ملک کے علاوہ کوئی شخص بھارت کی کوئی چیز استعمال نہ کرے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے۔ کوئی مزاق کر رہا ہے کہ رات کے وقت بھارتی طیارے کشمیر کے جنگل میں آئے اور سو بندے مار گئے۔ صبح کوئی شخص گھوڑے پر آیا اور اُن مرے ہوئے سو بندوں سے کہا “اٹھو اٹھو گھر جاؤ۔” یوں سَب زندہ ہو کر چلے گئے۔

مجھے گھڑسوار سے بھی شکایت ہے۔ درختوں کو کیوں نہیں بولا کہ “اٹھو اٹھو سیدھے کھڑے ہو جاؤ، کچھ نہیں ہوا۔”

درختوں کی موت پر ہنس رہے ہو؟… اوئے بدنصیبو، درخت بھی جاندار ہوتے ہیں.. درختوں میں بھی شعور ہوتا ہے، وہ بھی پیار اور نفرت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بلکہ کچھ کروڑ برس پہلے تُمہارے آباؤ اجداد بھی پودے بُوٹے تھے۔ اپنے باپ دادا کے مرنے پر ہنس رہے ہو؟.. ارتقا نے واقعی نہایت بے حِس اور کمال گھمنڈی مخلوق پیدا کر دی ہے۔ فرشتے بھی صحیح کہتے تھے کہ اے خدا ایسی مخلوق کیوں پیدا کر رہے ہو جو زمین پر فساد کرے گی۔

بھائی جی یہ تمہارا نقصان ہوا ہے۔ تمہارے آدھے پھیپھڑے کاٹ ڈالے گئے اور تُم بےوقوفوں کی طرح ہنس رہے ہو؟ لخ لخ افسوس۔

وزیرِاعظم عمران شریف پر بھی افسوس ہوا جس نے طنزاً بیان دیا ہے کہ “بھارتیوں نے ہمارا بلیئن ٹری پروگرام جیوپارڈائز کرنے کی کوشش کی ہے”۔ بےنیازی صاحب، حق تو یہ ہے کہ درختوں کو بھی شناختی کارڈ دیے جائیں مگر ظاہر ہے کہ ارتقائی طور پر چمپینزی باندروں کی شاخ سے الگ ہونے والی ہماری شاخ انتہائی گھٹیا نکلی ہے جو اپنے خاندان اور آباؤاجداد کا خیال نہیں رکھ سکتی۔ یاد رہے کہ سیارہ زمین پر زندگی کو “ٹری اوف لائف” کسی وجہ سے کہتے ہیں۔ درختوں کو اپنی جگتوں کا نشانہ مت بناؤ۔ یہ باپ دادا ہیں۔ ہمارا نام ہومو سیپیئنز کی بجائے ہومو سٹُوپیڈَس ہونا چاہیے تھا۔

سمجھ نہیں آتی کہ دو غریب ممالک اِس طرح کی ہاسیاں کھیڈیاں افورڈ کیسے کر سکتے ہیں؟ یار اِس سیارہ زمیں کے علاوہ تمہاری مزید کوئی جائے پناہ نہیں۔ اسے برباد کرنے پر کیوں تُل گئے ہو؟ شکست و جیت کی کوئی حیثیت نہیں اگر زمین رہنے کے قابل نہ رہے۔

بہرحال.. درختوں کے مرنے پر مجھے شدید افسوس ہے.. ممکن ہے کچھ پرندے بھی اپنے بچوں سمیت مر گئے ہوں، اُن کے گھونسلے بھی ٹوٹ گئے ہوں، شاید کچھ بندر بھی خون میں لت پت پڑے ہوں۔ انا للہُ وانا الیہ راجعون۔

آج صبح بھارتی اُڈن جوگے دوبارہ آئے تھے مگر ہم نے انہیں مار گرایا۔ شکر ہے خدا نے ہمیں اتنی طاقت دی کہ دشمن کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔ واہ واہ واہ۔ مگر اِس دوران مزید درخت مر گئے، اُن کا کون سوچے گا؟ انا للہُ وانا الیہ راجعون۔

یقیناً احباب پوچھیں گے کہ انسانوں سے زیادہ درختوں، پرندوں اور باندروں کی فکر کیوں ہو رہی ہے؟!!.. یہی تو بات ہے کہ آپ کو کیوں نہیں ہو رہی؟
•••

اللہ ایبٹ آباد کے چناروں، پنجاب و سندھ کے آم کے باغات، کمراٹ اور سوات کے جنگلوں، کشمیر کے جنگلوں، گلیات کے چیڑھ اور دیودار، مارگلا ہلز فوریسٹ، اور جہاں جہاں معصوم موجود ہیں اُن کو ہمارے اداروں کے شَر سے محفوظ رکھے۔

اب آپ دوبارہ عامر لیاقت نکاح سیریز میں بزی ہو جائیں۔

Exit mobile version