23فروری 1991 کی رات وادی کشمیر کےگاوں کنن اور پوش پورا میں کیا ہوا؟
ہمالیہ کے پہاڑ سب جانتے ہیں۔ لیکن کیا یہ اس لیے ہے کہ جو کچھ ان پہاڑوں نے دیکھا تھا وہ تقریباً تین دہائیاں قبل دو غیر رسمی دیہاتوں میں ہوا تھا اس لیے ہندوستان اور باقی دنیا آج اس واقعہ کو نظر انداز کرتے ہیں اور بے حسی کا انتخاب کرتے ہیں؟
سانحہ کنان، پوشپورہ انسانی ضمیر پر ایک بدنما داغ ہے۔ یہ سانحہ نہ صرف کشمیر بلکہ پوری انسانی تاریخ کا ایسا سیاہ ترین باب ہے کہ جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ 31 سال گزرنے کے باوجود بھی اس ہولناک دن کی یاد سے اس بستی کے مکینوں کے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔
یاد رہے کہ ’’کنان‘‘ اور ’’پوشپورہ‘‘ کپواڑا ضلع میں واقع دو جڑواں گائوں ہیں۔
31 برس قبل 1991 کی 23 فروری کو اس وقت انسانیت شرمندہ ہو گئی جب بھارتی قابض فوجیوں نے کریک ڈائون اور تلاشی کے نام پر ااس گائوں میں قیامت برپا کر دی اور ’’یومن رائٹس واچ‘‘ کے مطابق 100 سے 150 کے درمیان کشمیری خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔
80 برس سے لے کر 13 برس کی بچیوں تک کو اس سفاکیت کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ایسا سانحہ ہے جس پر افسوس ظاہر کرنے کیلئے الفاظ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں. انسانی حقوق کے ادارے اس تمام صورتحال پر تاحال خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
عصمت دری کی شکار خواتین میں سے صرف 40 ہی انصاف کے حصول کے لیے آگے بڑھیں۔ دوسروں کی اکثریت کو ان کے گاؤں کے بزرگوں نے ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ وہ غیر شادی شدہ تھیں۔
فوج کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین میں سے کئ خواتین جان کی بازی ہار گئ۔
دہلی حکومت نے محض اس واقعے کی تحقیقات کی، لیکن ہمیشہ کی طرح، انہوں نے اس واقعے کو بے بنیاد قرار دیا اور ملوث فوجیوں کو بری کر دیا تھا۔
کشمیر کے ہر گھر میں ایسی کہانی موجود ہے جو آزادی کی تلاش میں ادا کی گئی ہے۔ 2014 کے بعد سے، کشمیر کی خواتین نے 23 فروری کو کشمیری خواتین کے مزاحمتی دن کے طور پر منایا ہے، تاکہ کنن پوش پورہ میں جو کچھ ہوا اور اس کے بعد کشمیری خواتین کی عصمت دری اور قتل کے کئی دیگر واقعات کی یاد کو زندہ رکھا جا سکے۔
کشمیر کی خواتین اپنی روزمرہ زندگی میں بھارتی ظلم، بربریت کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کشمیری خواتین پر بھارتی فوج کے تشدد کو تاریخ کی کتابوں میں لکھا جانا چاہیے۔
سیدہ ماہ نور نمل یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں۔ وہ سماجی مسائل پر رپورٹنگ اور میزبانی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ان دنوں وہ کشمیر لنک کے ساتھ انٹرن رپورٹر کے طور پر منسلک ہیں
@mahnoor_alishah