Site icon روزنامہ کشمیر لنک

نیلم ویلی روڈ کے نام کی تبدیلی: ‘میاں غلام رسول زندہ ہوتے تو کبھی مخالفت نہ کرتے’

نیلم ویلی روڈ

dav

نیلم ویلی روڈ کا نام تبدیلی اور اسے آزاد کشمیر کے سابق صدر خورشید الحسن خورشید کے نام سے منسوب کرنے کے حوالے سے وادی نیلم کی سیاسی و سماجی شخصیات اور عام شہریوں کے درمیان بھی بحث جاری ہے اور ہر آنے والے دن یہ بحث شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اب اس بحث میں وادی نیلم سے دونوں منتخب اراکین اسمبلی بھی شامل ہو گئے ہیں۔

اس معاملے کو لیکر دونوں اطراف سے متعلقہ حکام کو کئی درخواستیں جمع کروائی جا چکی ہیں اور توقع ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف کو لیکر آنے والے دنوں میں عدالتوں کا بھی رخ کریں گے۔
اگرچہ دونوں ممبران اسمبلی نے نیلم ویلی روڈ کے نام کی تبدیلی کی تجویز کو مسترد کیا اور اسے نیلم ویلی کی شناخت بدلنے کے علاوہ محروم سیاسی راہنما کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش قرار دیا ہے تاہم اس تجویز کے حامیوں کی تعداد بھی کم نہیں۔


حکومت اور سرکاری ادارے اس بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں، یہ ابھی طے ہونا باقی ہے تاہم یہ بحث جتنی طویل ہو گی زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہوں گے اور کئی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وادی نیلم میں کئی سالوں سے پنپنے والی برادری ازم کی تقسیم کو مزید گہرا کرے گی۔

نیلم ویلی روڈ کے نام کی تبدیلی، معاملہ کیا ہے؟

یہ تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب گذشتہ ہفتے ایک حکومتی مکتوب سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں محکمہ شاہرات نے شاہراہ نیلم کا نام تبدیل کر کے اسے سابق صدر آزاد کشمیر خورشید الحسن خورشید کے نام سے منسوب کرنے کی درخواست کے حوالے سے محکمانہ تجاویز اور رپورٹ طلب کی گئی تھی۔
اس مکتوب کے سامنے آتے ہی کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر حکومت کے اس ممکنہ فیصلے کی مخالفت کی اور اسے وادی نیلم کی شناخت مسخ کرنے کے ساتھ ساتھ سابق صدر کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش قرار دیا۔
اگلے چند روز میں اس حوالے سے ڈپٹی کمیشنر نیلم اور محکمہ شاہرات کے پاس چند درخواستیں بھی جمع ہوئی جن میں اس عمل کو روکنے کی استدعا کی گئی تاہم حکومت کی جانے سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا۔

نیلم ویلی روڈ کی تاریخی اہمیت

آزاد کشمیر کی وادی نیلم جس کا قدیمی نام درآوہ او دریائے نیلم (کشن۔گنگا) کے آر پار 200 کلو میٹرلمبی وادی ہے۔ وادی نیلم کی مرکزی شاہراہ کو شاہراہ نیلم کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 60 کی دہائی میں اس وقت آزادکشمیر کے صدر خورشیدالحسن خورشید نے گھوڑے پر نیلم کا دورہ کیا اور عوامی مطالبے پر سڑک کی تعمیر کا اعلان کیا۔ جس کے بعد نوسیری سے اس کی تعمیر مقامی لوگوں نے کھدائی کے زریعے شروع کی اس وقت مشینری نہ ہونے کی وجہ سے پگڈنڈی نما سڑک بنائی گئی۔ جس سے آٹھمقام تک شہریوں کو گاڑی کی سہولت میسر آئی۔ اس سے قبل نیلم کے شہری نوسیری سے کندھوں پر سامان لایا کرتے تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وادی نیلم کے آخری گائوں تائوبٹ تک سڑک تعمیر سے عوام کی سفری مشکلات کا کسی حد تک خاتمہ ہوا۔ 2005میں نیلم کو ضلع کا۔درجہ دیا گیا۔ جس کے بعد تعمیروترقی کا دور شروع ہوا اور شاہراہ نیلم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئیے پختہ اور کشادہ سڑک کی تعمیر شروع کی گئی۔ ضلعی ہیڈکوارٹر آٹھمقام اور بعدازاں تائوبٹ تک شاہراہ نیلم کی تعمیر کا عمل تاحال جاری ہے ۔

چند روز قبل آزادکشمیر کے وزیر بلدیات کی ہدایت پر نیلم ویلی روڈ کو کے ایچ خورشید کے نام سے منسوب کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر نام کی تبدیلی کو لیکر ایک طوفان برپا ہے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر سروے بھی کروایا گیا جس میں اکثریت نے شاہراہ نیلم کی حمایت کی ۔ شاہراہ نیلم کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نیلم کی پہچان شاہراہ نیلم ہے نیلم کی سیر کو آنے والے سیاح نیلم کو سرچ کرتے ہیں جس سے انہیں بہت سی معلومات مل جاتی ہیں ۔جبکہ کے ایچ خورشید نام کی حمایت کرنے والوں کا موقف ہے کہ کے ایچ خورشید نے وادی نیلم کے عوام کے کندہوں سے بوجھ اتارا اور انہیں سڑک تعمیر کر کے دی وہ محسن کشمیر ہیں شاہراہ نیلم کا نام کے ایچ خورشید کے نام سے منسوب ہونا چاہئے۔

نیلم ویلی روڈ کے نام کی تبدیلی کے حامی کیا کہتے ہیں؟

لطیف الرحمان آفاقی کے ایچ خورشید کی جماعت جموں وکشمیر لبریشن لیگ کے راہنما اور سابق امیدوار اسمبلی ہیں۔ اور وہ نیلم ویلی روڈ کو کے ایچ خورشید کے نام سے منسوب کرنے کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘میں شاہراہ نیلم کو کے ایچ خورشید کے نام سے منسوب کرنے پر حکومتی حلقوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔’

ان کا کہنا ہے کہ: ‘تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو کے ایچ خورشید کے دورہ نیلم سے قبل روڈ نہ آئی تھی۔ اور نہ ہی آنی تھی انہوں نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ہمارے کندھوں سے بوجھ اتارا۔ میاں غلام رسول مرحوم اگر زندہ ہوتے تو آج فرنٹ فٹ پر آکر شاہراہ نیلم کو کے ایچ خورشید کے نام پر رکھنے کی حمایت کرتے۔ میاں عبدالوحید جو مخالفت کر رہے ہیں اس کی سیاسی مفاد کے علاوہ کوئی وجہ نہیں۔ شاہ غلام قادر کا نیلم سے کوئی تعلق نہیں انہوں نے پیسہ کمانا ہے اور آنا جانا ہے۔ نیلم کی معدنیات کے حوالے سے ان کا ایک خاص ایجنڈا ہے۔ حکومت کا فیصلہ قابل تحسین ہے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔’

نوجوان وکیل خواجہ اسلم رضا کہتے ہیں کہ، ‘ہم صدیوں سے ریاست جموں کشمیر کے درجہ اول کے باشندے ہیں سوشل میڈیا پر نان ایشو کو ایشو بنایا گیا۔ خورشید الحسن خورشید کے نام سے شاہراہ نیلم کو منسوب کیا جارہا ہے وہ قومی ہیرو ہیں قائد اعظم محمد علی جناح کے رفیق خاص اور محترمہ فاطمہ جناح کے رقیق خاص اور نیلم ویلی کی سڑک کو ساٹھ کی دہائی میں ذاتی دلچسپی سے تعمیر کروانے والے محسن ہیں۔ حکومت کے اس فیصلے کو وادی نیلم کے عوام بنا کسی تعصب کے فخر کے ساتھ بخوشی قبول کریں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے میری شاہراہ کے ایچ خورشید کے نام سے منسوب ہو رہی ہے۔ جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی ہم ہر پلیٹ فارم پر انہیں بے نقاب کریں گے۔ نیلم کے منتخب نمائندگان نے بھی اس حوالے سے بیانات دئیے ہم ان کا بھی محاسبہ کریں گے۔’

اس تجویز کے مخالفین کا کیا خیال ہے؟

صحافی حیات اعوان کا خیال ہے کہ، ‘کے ایچ خورشید کی ذات سے ہم اختلاف نہیں کر سکتے، کیونکہ وو کشمیریوں کے حقیقی لیڈر بھی تھے۔ ان کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی حکومت کی طرف سے ایک سازش ہے وہ زیادتی ہے۔’

وہ سمجھتے ہیں کہ: ‘بیرون ممالک مقیم پاکستانی کشمیری اوربین الاقوامی سطح پر لوگ اسے شاہراہ نیلم کے نام سے ہی پہچانتے ہیں۔ نام کو تبدیل کرنا حکومت کی طرف سے ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ حکومت اگر ان کے نام سے کوئی سڑک منسوب کرنے میں سنجیدہ ہے توکوئی بڑا ادارہ جیسا کہ یونیورسٹی یا دوسرا کوئی ادارہ منسوب کر دےلیکن نیلم کے ساتھ ایسا کرنا ناانصافی ہے۔’

حیات اعوان کہتے ہیں: ‘ مزار خورشید مظفرآباد کو جانے والی روڈ کو وزیر بلدیات نے اپنے والد خواجہ عثمان مرحوم کے نام سے منسوب کیا ہے۔ اگر منسٹر صاحب اتنے ہی سنجیدہ تھے تو انہیں اس روڈ کو کے ایچ خورشید کے نام سے منسوب کرنا چاہئے۔’

سابق امیدوار اسمبلی اور سماجی راہنما خرم جمال شاہد کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے سے عوام نیلم میں بیچنی پھیلی ہے مختلف فورم پہ بالخصوص سوشل میڈیا پہ اس کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ ‘شاہرہ نیلم پورے پاکستان میں ایک خاص شناخت رکھتی ہے اور وادی کے لوگوں کی اس روڈ سے گہری نسبت ہے۔ حکومت وقت وادی کی عوام کو خوبصورت اور معیاری شاہرات بنانے کے بجائے صحت اور تعلیم کی سہولیات دینے کے بجائے اس طرح کے اقدامات کر رہی ہےکہ جس میں اس علاقے کی شناخت تبدیل ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ: ‘ میں بحثیت سیاسی وسماجی کارکن اس تجویز کو  اور اس شناخت کے تبدیل کرنے کے عمل کو مسترد کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں محسن کشمیر خورشید الحسن مرحوم کی شخصیت کو متنازع  ان کے شا یان شان وادی نیلم میں ایک عظیم تعلیمی درسگاہ اور ایک جدید اسپتال ان کے نام سے قائم کیا جائے۔’

کنڈل شاہی سے تعلق رکھنے والی سیاسی و سماجی کارکن لطف الرحمان قریشی کا کہنا ہے کہ: ‘ شاہراہ نیلم کے نام کو کے ایچ خورشید کے نام سے تبدیل کرنے کے حوالے سے نیلم کے اندر بہت بے چینی پائی جاتی ہے۔ بحیثیت سیاسی کارکن میں سمجھتا ہوں کے پی ٹی آئی گورنمنٹ اس سے دو طرح کے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ پہلی بات یہ کہ یہ ضلع نیلم کی تاریخ کے خلاف سازش ہے، دوسری بات یہ کہ حکومت کی نااہلی اور۔ ناکامی کو چھپانے کے لئیے آئے روز کوئی نہ کوئی پرپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ لوگوں کی توجہ کو ہٹانے کے لئیے سوشل میڈیا پر شوشہ چھوڑا جارہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایک تو یہ نیلم کے خلاف سازش ہے اور دوسرا کے ایچ خورشید جنہوں نے نیلم ویلی کو روڈ دیا وہ محسن نیلم ہیں اور یہ ان کی ساکھ کو خراب کرنے کی ایک سازش ہے۔’

سیاسی و سماجی راہنما، ڈاکٹر منان کے مطابق، ‘نیلم کی تاریخ جو ہمیں ٹوٹی پھوٹی صورت میں دستیاب ہے۔ اس میں نیلم کو کشن گھاٹی دراوہ اور 65 سال قبل نیلم کا نام ملا۔ اگر ہم نیلم کے نام کو، جو اس کی خوبصورت تسلسل ہے، دریائے نیلم شاہراہ نیلم وادی نیلم، اس کو متاثر کرنے کی کوشش کریں گے تو جو 65 سال سے جو تسلسل کے ساتھ تاریخ مرتب ہو رہی ہے، پھر نام کی تبدیلی کی نذر کریں گے، تو یہ سارے کی ساری تاریخ مرتب ہو رہی ہے جو صفحہ قرطاس پر لکھی جارہی ہے یہ متاثر ہو جائیگی۔ ہم کبھی کسی نام کی نذر ہو جائیں گے تو کبھی کسی نام کے یہ سلسلہ چلتا رہے گا تو ہماری لازوال قربانیاں لازوال داستانیں ہماری ثقافت کی داستانیں سب مٹ جائیں گی۔’

Exit mobile version