تحریر: نقی اشرف
ہمارے زمانہ طالبِ علمی میں جب ہم طلبا سیاست میں سرگرم تھے، تب اپنی سرگرمیوں کے ابلاغ کے لیے اخبارات کا رُخ کرتے تو دو ہی اخبارات پاکستان بھر اور اُس کے زیرانتظام جموں کشمیر کے ہمارے شہر راولاکوٹ میں اپنی کامیاب اشاعت جاری رکھے ہوئے تھے۔
روزنامہ “جنگ“ اور روزنامہ “نوائے وقت“۔ جنگ کے نمائندہ سردار نذر محمد خان(خدا غریقِ رحمت کرے) اور نوائے وقت کے نامہ نگار عزیز کیانی( خدا اُنھیں صحت و تندرستی عطا کرے اور اُنھیں سلامت رکھے) تھے۔ عزیز کیانی صاحب کی ڈاک خانے کے سامنے نیوز ایجنسی تھی(تاحال موجود ہے) اور نذر صاحب کچہری میں ہوتے تھے،وکالت کرتے تھے۔ تب ہمارے ہاں اخبارات کی نمائندگی کرنے والے بہت کم لوگ تعلیم یافتہ تھے،جس نے جہاں کہیں کسی اخبار کی نیوز ایجنسی لے لی اُس نے ساتھ میں نمائندگی بھی لے رکھی ہوتی تھی،وہ صحافی کہلاتا تھا۔کچھ لکھنا بھلے نہ آتا یو یا مطلق لکھنا ہی نہ آتا ہو،ایک عدد مہر بنوا کر جیب میں رکھ لی،کوئی کچھ لکھ کر لے آتا تو دستخط کرکے جیب سے جھٹ مہر(اسٹیمپ) اور اسٹیمپ پیڈ نکالا اور مہر ثبت کردی،اگر اسٹیمپ پیڈ نہیں بھی ہے تو مہر کو اپنا منہ کھول کر تھوڑا سا بھاپ دینے سے کچھ دھندلی سی مہر تو لگ ہی جاتی۔
ایسے میں نذر صاحب جیسے لوگوں کا صحافت میں وجود ایک غنیمت تھا۔ اُن کے پاس جو کوئی کچھ لکھ کر لے جاتا تھا وہ بعض دوسرے نمائندگان کے برعکس اُسے پڑھتے اور پھر دستخط کرتے۔ تب ہمارے ہاں خبر اخباری بیان کو کہا جاتا تھا۔ آپ اپنا اخباری بیان ڈاک میں راولپنڈی ارسال کرتے تھے یا بذریعہ فیکس۔ نذر صاحب اُس دور کے اُن صحافیوں میں سے نہ تھے جو محض کسی کا لکھا ہی ارسال کرتے تھے بلکہ خود بھی لکھتے تھے۔ وہ سیاسی سرگرمیوں کی کوریج کرتے،مقامی سیاسی و سماجی مسائل کے حوالے سے لکھتے۔ جنگ ایک مقبول اخبار تھا،اُس میں چھپی چیز کی تب بہت اہمیت تھی۔
اُس دور میں اخبارات کسی بات کے مستند ہونے کا کافی حد تک معتبر حوالہ ہوا کرتے تھے۔ جنگ کے ہفتہ وار ایڈیشن بہت پاپولر تھے۔ سیاسی ایڈیشن ،مذہبی،ادبی،شوبز،علاقائی مسائل اور اس طرح کے دیگر ایڈیشنز شائع ہوتے تھے۔ جنگ کے سیاسی ایڈیشن میں پاکستان کے چاروں صوبوں ،وفاق اور اُس کے زیرانتظام جموں کشمیر کی سیاسی ڈائریاں چھپتی تھیں ۔ ہماری یاداشت میں یہ ڈائری مظفرآباد سے خواجہ عبدالرشید مرحوم(خدا اُنھیں غریقِ رحمت کرے)لکھا کرتے تھے،بعد ازاں سردار نذر محمد خان بھی لکھتے رہے۔
ازاں بعد جب میں نے راولاکوٹ سے روزنامہ اوصاف بطور ڈسٹرکٹ رپورٹر جوائن کیا تو اُن سے ورکنگ ریلیشن شپ بھی رہی اور اُٹھنا بیٹھنا بھی۔ نذر صاحب کی جیسی یاداشت میں نے اپنی زندگی میں کسی کی کبھی نہیں دیکھی،وہ جس شخص کی شادی یا جنازے پر جاتے،وہ تاریخ اُنھیں کبھی نہ بھولتی،ایک وقت آتا کہ اُس کی اولاد یا بہن بھائیوں کو بھی وہ تاریخ بھول جاتی مگر اُنھیں نہ بھولتی۔
ایک دفعہ مجھے کہنے لگے تمھارے بڑے بھائی عارف صاحب کی وفات کب ہوئی تھی، میں سال اور میہنہ ہی بتا پایا،جھٹ سے مجھے پوری تاریخ اور دن بھی بتایا۔ کس نے کونسا الیکشن کب لڑا،ہارا یا جیتا اور کتنے ووٹ لیے،یہ اُن کو ازبر تھا۔ ہمیں لکھتے ہوئے تاریخ کا کوئی مغالطہ محسوس ہوتا تو اُن سے کنفرم کرتے۔ بعض اوقات میں راولاکوٹ سے راولپنڈی جارہا ہوتا تو مجھے ایک لفافہ تھماتے کہ مری روڈ پر جنگ کے دفتر میں دے جانا۔ایک دفعہ کہنے لگے ‘‘میں نے ایک مرتبہ ایک صحافی کو ایک لفافہ دیا کہ یہ اخبار کے دفتر دے جانا ،جب علاقائی مسائل کے حوالے سے ہفتہ وار ایڈیشن آیا تو میں نے دیکھا کہ میری تحریر شامل نہیں ہے۔
ایک ہفتہ بعد دیکھا تو میری وہی تحریر ایک دوسرے اخبار میں اُنھی کے نام سے چھپی ہے جنھیں میں نے وہ لفافہ دیا تھا۔‘‘ میں نے سُن کر برجستہ سوال کیا ‘‘نذر صاحب،آپ نے یہ واقعہ مجھے کیوں سنایا،کیا آپ کو ڈر ہے کہ میں کسی روز آپ سے یہ دو نمبری کر جاوں گا؟‘‘ اس پر بہت ہنسے۔ شا ئستہ انسان تھے، اختلاف کی صورت میں بھی دوسرے کی بات پوری سنتے،پھر اپنی کہتے۔ مجھے وطن مالوف چھوڑے دو دہائیوں سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔
،اس دوران وطن جانے پر اُن سے مختصر ملاقاتیں ہی رہیں،کوئی تفصیلی نشست نہ ہوسکی۔ اُن کی تحریریں پڑھنے کو ملتی تھیں۔ وہ اپنی وفات سے کچھ پہلے تک لکھتے رہے۔ دنیا میں ہمیشہ کس نے رہنا ہے،ہر ایک نے بلآخر رخصت ہونا ہی ہوتا ہے،ایسے میں خوش قسمت ہیں وہ انسان کہ جن سے دوسرے انسانوں کو فیض پہنچا ہو۔ میں اور آپ اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ وہ انسانوں کے لیے سودمند رہے۔ ایسے لوگ تادیر یاد رکھے جاتے ہیں ورنہ آج کے اس تیز رفتار دور میں انسان جونہی دُنیا سے پردہ کرتا ہے تو وہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہوجاتا ہے۔ خدا غریقِ رحمت کرے۔ کہیں سے مے دوام لا ۔ساقی، بادہ کش تھے جو پرانے آٹھتے جاتے ہیں۔