جب تحریک عدم اعتماد کا نوٹس اوراجلاس کی ریکوزیشن اسمبلی سیکرٹیریٹ میں جمع ہوئی تو وزیراعظم عمران خان نے اسے ‘اپنی دعاؤں کا نتیجہ’ قرار دیکر دعویٰ کیا کہ وہ ایک بال پر تین وکٹیں اڑائیں گے۔
اس مرحلے پر وزیراعظم ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کے ایمپائر ابھی بھی ان کے ساتھ ہے اورتھوڑی بہت کان کھنچائی کے بعد انہیں بچا لیا جائے گا- لیکن جب انہیں اندازہ ہوا کہ ایمپائر اس مرتبہ نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کرچکا تو وزیر اعظم نے عوامی جلسوں میں نیوٹرل کو جانور قرار دیا اور ایمپائر کو ایک مرتبہ پھر ساتھ دینے کی ترغیب دینا شروع کی۔
اپنی جماعت کے ایم این ایز نے انحراف شروع کیا تو پہلے انہیں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے عدم اعتماد میں ووٹ ڈالے سے روکنے کی کوشش کی اور منحرف اراکین کے ووٹ کو گنتی میں شمار نہ کرنے کا اختیار سپیکر کو دلوانے پہنچ گئے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ووٹ ڈالنے سے روکنا اورڈالا گیا ووٹ شمار نہ کرنا غیر آئینی ہو گا تو ایک مرتبہ پھر ایمپائر سے رجوع کیا گیا۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ عدم اعتماد میں براہ راست عوام نے نہیں بلکہ ان کے منتخب نمائندوں نے ووٹ ڈالنے ہیں اور وزیر اعظم ایوان میں اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں، شروع دن سے عوامی مقبولیت کی آڑ لیکرعدم اعتماد کو کی بلا کو سر سے ٹالنے کی کوشش کی۔ جب ایمپائر، اپوزیشن اور اتحادیوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا تو عمران خان رفتہ رفتہ بلیک میلنگ پر اتر آئے۔ عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ ہوا ملک بھر میں جلسے کرنے کے بعد کارکنوں کو اسلام آباد طلب کیا گیا- پہ در پے عوامی جلسوں کے دوران عسکری قیادت کا نام لیکر اور سیاسی مخالفوں کا نام بگاڑ کر اور عوامی جذبات سے کھیل کر ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی۔
منحرف اراکین اسمبلی پر پر دباو ڈالنے کے لیے کارکنوں کے ذریعے سندھ ہاوس ر دھاوا بولا گیا۔ منحرف اراکین اور ساتھ چھوڑنے والے اتحادیوں کو دھمکانا ان کا گھیراؤ، ان کے خاندانوں کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی دھمکیوں کے باوجود جب اتحادی جماعتوں اور اپنے اراکین اسمبلی ساتھ چھوڑنے لگے تو کپتان کی ‘دعاوں کے نتیجے میں’ آنے والی تحریک عدم اعتماد یک دم بیرونی سازش کا شاخسانہ قرار دی گئی۔
پریڈ گراونڈ جلسے میں کپتان نے جو ‘ترپ کا پتہ’ کئی دونوں سے چھپا کر رکھا تھا، جیب سے نکالا، لہرایا اور پھر جیب میں ڈالا لیا- دبے دبے لفظوں میں شکوہ کیا کہ اس ملک میں حکومتیں بنانے اور گرانے کا کام کچھ لوگوں نے اپنے پاس رکھا ہے اور وہی لوگ اس مرتبہ بھی ان کی حکومت گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔ہمیشہ بھٹو پر تنقید کرنے والے کپتان اچانک بھٹو کی خوداری کے معترف بن گئے اور دعویٰ کیا کہ جس طرح کی سازش بھٹو کے خلاف ہوئی وہی سازش ان کی حکومت کے خلاف بھی ہو رہی ہے۔
یہ وہ آخری سہارا ہے جس کے پیچھے ماضی میں کئی حکمران چھپتے رہے اور عمران خان بھی وہی کر رہے ہیں۔ عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں عوام کی اکثریت امریکہ سے نفرت کرتی ہے اور مذہب اور امریکہ دشمنی کی آڑ میں با آسانی ان کا جذباتی استحصال کیا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ تیر نشانے کے کافی قریب لگا ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد کی ہمدردیاں امریکہ دشمنی میں عمران خان کی جاب مڑنا شروع ہو گئی ہیں تاہم منحرف اراکین، ساتھ چھوڑںے والی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن پر اس سارے عمل کا کوئی خاص اثر ابھی نظر نہیں آیا۔ ایمپائر کی جانب سے بھی اس معاملے پر ابھی تک کوئی خاص رد عمل نہیں آیا۔
گذشتہ رات قوم سے خطاب کے دوران بظاہر زبان کی لغزش مگر حقیقت میں کمال اداکاری کرتے ہوئے وزیر اعظم امریکہ کا نام بھی زبان پر لے آئے کہ پاکستان کو ایک ‘آزاد خارجہ پالیسی’ دینے پر امریکہ اور آپوزیشن ملک ان کی حکومت گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔ چند روز قبل جو تحریک عدم اعتماد عمران خان کے بقول ان کی دعاوں کے نتیجے میں آئی تھی اور وہ عزم ظاہر کر چکے تھے کہ وہ عدم اعتماد کے دوران ایک بال سے تین وکٹیں اڑائیں گے، لیکن جب ایک ایک کر کے ان کی اپنی وکٹیں گرنے لگی اور کھلاڑی دوسری ٹیم میں جانے لگے تو اچانک سے انہیں اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش کا پہاڑ نظر آ گیا۔
تحریک عدم اعتماد اب اس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے کہ اب اس میں مزید تاخیر کی آئینی گنجائش باقی نہیں۔ مزید تاخیر آئین سے انحراف تصور ہو گی۔ موجود ہ صورت حال میں دو ہی آئینی طریقے ہیں- اول یہ کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو اور نتیجہ حکومت اور آپوزیشن تسلیم کریں- دوسرا یہ کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں اور ایوان نیا قائد منتخب کرے۔ اسمبلی توڑنے کا آپشن ختم ہو چکا- تحریک عدم اعتماد کے عمل میں جس قدر تاخیر ممکن تھی ہو چکی، اب اس کو مزید التواء میں رکھنا ممکن نہیں- عدم اعتماد کو تین ماہ تک ملتوی کرنا، ایمرجنسی نافذ کرنا اور دوسرے تمام زیر غور و زیر بحث امکانات آئین سے متصادم ہیں اور آئین سے انخراف تصور ہوں گے- آئین شکنی ملک سے واضح غداری ہے اور اس کی سزا، سزائے موت متعین ہے۔ بالفرض وقتی طور پر طاقت کے بل بوتے پر آئین کو معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کر بھی دی جائے اور عدالتیں اس کی توثیق بھی کر دیں تو بھی کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی جسٹس وقار سیٹھ اپنے فیصلے میں لکھے گا کہ آئین توڑنے والے کو پھانسی دے کر اس کی لاش ڈی چوک میں لٹکائی جائے۔
جہاں تک معاملہ دھمکی آمیز خط کا ہے، اس پر وزیر اعظم ہر آنے والے دن ایک نیا ابہام پیدا کرتے ہیں۔ پہلے دن یہ تاثر دیا گیا کہ کسی ملک نے خط لکھ کر دھمکی دی، پھر کہا گیا نہیں مراسلہ دوسے ملک میں تعینات اپنے سفیر نے بھیجا۔ میمو گیٹ طرز پردھمکی آمیزخط کی بھی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہیں۔ مناسب ہو گا کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دے جو چھان بین کے بعد حقائق سامنے لائے اور ذمہ داروں کا تعین کرے۔ تاہم یقین ہے کہ جب دھمکی آمیز خط اور حکومت گرانے کی بیرونی سازش کے پہاڑ کو جب بھی کھودا جائے گا، اس میں سے مردہ چوہا ہی نکلے گا اور عین ممکن ہے اس چوہے کے پیٹ سے ملتان کی مٹی میں اگی گندم کے چند دانے برآمد ہوں۔
جلال الدین مغل گذشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ فری لانس ملٹی میڈیا رپورٹر کے طور پر انہوں نے آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے متعلق مختلف موضوعات پر رپورٹنگ کی ہے۔ ان کا کام نیو یارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ اردو، وائس آف امریکہ، روزنامہ ڈان اور کئی دیگر قومی اور عالمی اخبارات اور جرائد میں شائع ہو چکا ہے۔