آئی جی کا تبادلہ: ملک کو کیسے چلنا ہے اس کیس میں سمت طے کرینگے، چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد جان محمد کے تبادلے پر از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ منسٹر کہتا ہے جو مرضی آئے گا کریں گے، ہم دیکھتے ہیں وہ کیسے کریں گے، اس کیس میں ہم آئندہ کے لیے لائن طےکریں گے کہ ملک کو کیسے چلنا ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ آئی جی اسلام آباد کے تبادلے پر از خود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے والے وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وفاقی وزیر اعظم سواتی پیش ہوئے، اٹارنی جنرل خالد جاوید، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکریٹری داخلہ بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ‘آپ نے عدالت کے بارے میں اس طرح کا طنزیہ بیان کیوں دیا’ جس پر ان کا کہنا تھا میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا ‘تو آپ بتا دیں کیا بیان دیا تھا، آپا زبیدہ کی کہانی آپا زبیدہ کی زبانی سن لیتے ہیں، میں نے خود سنا ہے، ابھی عدالت میں آپ کا بیان چلا دیتے ہیں’۔وزیر اطلاعات نے کہا میں عدالت کا بے حد احترام کرتا ہوں، میری جرات ہی نہیں کہ عدالت کے بارے میں کوئی بات کروں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا ‘بیورو کریسی کو کردار ادا کرنا ہے تو الیکشن کی کیا ضرورت ہے یہ بیان کس کا ہے’ جس پر فواد چوہدری نے کہا میرا اشارہ عدلیہ کی طرف ہرگز نہیں تھا۔چیف جسٹس نے آئین کی کتاب لہرا کر فواد چوہدری کو کہا آپ آرٹیکل فوراً پڑھیں، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔عدالت نے فواد چوہدری کے وضاحتی بیان کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنالیا۔فواد چوہدری نے اس موقع پر کہا کہ یہ بھی تو مناسب نہیں کہ آئی جی منسٹر کا فون نہ سنے اور نہ کال بیک کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا وزیر ہے تو کیا ہوا کیا قانون سے بالا ہے، ایک عام آدمی اور ایک طاقتور وزیر کا کیا مقابلہ ہے، اگر آپ اپنے بیان پر اصرار کر رہے ہیں تو پھر میرٹ پر دیکھ لیتے ہیں۔وزیر اطلاعات نے کہا میں بالکل بھی اصرار نہیں کر رہا جس پر چیف جسٹس نے کہا ٹھیک ہے آپ کا معاملہ علیحدہ کر دیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں