کشمیری نہ اپنے گھروں میں اور ناہی گھر سے باہر کہیں محفوظ ہیں۔سید علی گیلانی

ی طلبہ کو تعلیمی اداروں یا ہوسٹل سے ہی غائب کردیا جاتا ہے یا پھر انہیں اس قدر ستایا جاتا ہے کہ وہ اپنی اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس آجاتے ہیں۔ جوانوں کے خیالات سے تو پہلے ہی بھارتی ایجنسیاں اور حکمران خوفزہ ہیں اب اپنا کاروبار کرنے والوں کا جینا بھی حرام کردیا جاتا ہے۔ آزادی پسند راہنما نے کہا کہ بھارت میں کشمیری اس ذہنی مریض ٹولے کے نزدیک دوہرے ”گنہگار” ہیں ایک تو وہ مسلمان ہیں اور دوسرا کشمیری۔ یہ دونوں شناختیں انہیں ہر قسم کی نفرت، تذلیل اور غنڈہ گردی کا حقدار بنادیتی ہیں۔ حریت راہنما نے ایسے افسوس ناک واقعات کو اُن افراد اور گروہوں کے لیے چشم کُشا قرار دیتے ہوئے کہا جو بھارت کے سیکولر کردار اور مذہبی ہم آہنگی کو ہمسایہ ممالک کے لیے مشعل راہ قرار دینے کی دہائی دیتے وقت ایسے شرمناک واقعات سے آنکھیں چراتے ہیں۔ شملہ واقعے کو اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کو اقتصادی طور کمزور کرنے اور انہیں نان شبینہ کا محتاج بنانے کی استعمارانہ پالیسی قرار دیتے ہوئے حریت چیرمین نے کہا کہ ایک منظم اور سوچے سمجھے پلان کے تحت کسی بھی حرکت کو بہانہ بناکر غنڈوں اور انتہا پسند جنونیوں کو ایسے واقعات دہرانے کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کی تائید اور معاونت سے ایسے سماج دشمن افراد کو ہمت اور حوصلہ ملتا ہے، کیونکہ مسلمان اور خاص کر کشمیریوں کو اذیتیں دینا، ان کے جان ومال کو نقصان پہچانا اور ان کی تذلیل کرنا قومی فریضہ سمجھ کر عملایا جاتا ہے۔ ایسے بے لگام عناصر کو زعفرانی سرکار کی طرف سے پھول مالا ئیں پہنا کر ان کو ایسے غیر اخلاقی، غیر انسانی اور غیر جمہوری وارداتیں عملانے پر انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ حریت چیرمین نے کہا کہ ہمارے وسائل پر قبضہ کرکے، ریاست میں قتل وغارت گری، سیاسی غیر یقینیت اور افراتفری کا ماحول پیداکرکے لوگوں کو نہ یہاں چین سے رہنے دیا جاتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں