مقبوضہ کشمیرمیں صحافیوں کے خلاف کریک ڈاون جاری

سائبر پولیس اسٹیشن میں خاتون فوٹو جرنلسٹ سے پوچھ گچھ
آخر میرا قصور کیا ہے؟ کشمیری خاتون صحافی مسرت زہرا کا سوال
کشمیر ی صحافیوں کے خلاف کارروائیوں پراحتجاج
ممتاز غیرسرکاری عالمی تنظیموں کا کشمیری صحافیوں کیخلاف مقدمات فوری ختم کرنے کا مطالبہ
سرینگر:مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز نے صحافیوں کے پیشہ ورانہ فرائض میں مداخلت کے لئے کریک ڈاون شروع کردیا ہے ، مسرت زہرہ اور پیرزادہ عاشق کے بعد اب معروف ٹی وی پینلسٹ اور صحافی گوہر گیلانی کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی ،دنیا بھر کی صحافتی تنظیموں نے کشمیری صحافیوں کے خلاف ان انتقامی کارروائیوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے احتجا ج کیا ہے ،کے پی آئی کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں سچ لکھنے کی پاداشت میں کشمیری صحافیوں کے خلاف کریک ڈاون جاری ہے،گذشتہ شب پولیس نے ایک پریس ریلیز جاری کیا جس میں گوہر گیلانی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا ذکر کیا گیا ہے-پولیس پریس ریلیز کے مطابق انہیں قابل اعتماد ذرائع کے حوالے اطلاع ملی ہے کہ گوہر گیلانی کوسوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنی پوسٹوں اور تحریروں کے ذریعے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا ہے اور اسے قومی سالمیت کے لئے خطرہ قرار دیا گیا-پولیس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گوہر گیلانی سوشل میڈیا پر ایسے پوسٹس سے عسکریت پسندی کو بڑھاوا دے رہا ہے جس سے امن و قانون میں بھی رخنہ پڑسکتا ہے- پولیس کے سائبر ونگ نے ان کے خلاف ایک ایف آئی اے زیر نمبر 11/2020 زیر سیکشنUAPA درج کیا ہے اور اس معاملہ میں تفتیش شروع کی ہے-پولیس نے اس سے قبل ایک خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ اور دی ہندو اخبار کے جموں کشمیر کے نمائندے پیرزادہ عاشق کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا تھا جس کے خلاف سیاسی جماعتوں کے علاوہ صحافتی انجمنوں نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔علاوہ ازیں غیر قانونی سرگرمیاں اور روک تھام ایکٹ (ULPA) کے تحت قابل اعتراض فیس بک پوسٹوں کے لئے مقدمے کا سامنا کرنے والی کشمیری خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا سے سائبر پولیس ونگ میں پوچھ گچھ کی گئی اور بعد میں انہیں گھر جانے کی اجازت دی گئی۔پولیس سپرنٹنڈنٹ سائبر پولیس ونگ کشمیر طاہر اشرف نے میڈیا کو بتایا کہ چونکہ ایف آئی آر کٹ چکی ہے اس لئے پوچھ گچھ قانونی کارروائی کا ایک حصہ ہے۔ متعلقہ تفتیشی افسر نے اس سے پوچھ گچھ کی۔ اس سے قبل ، خاتون صحافی نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھاکہ مجھے اچھی قسمت کی خواہش ہے۔ کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ میں ایک صحافی کی حیثیت سے اپنے حقوق کا دفاع کروں۔سرینگر شہر سے تعلق رکھنے والی جوان سال خاتون صحافی مسرت زہرا کا کہنا ہے کہ ان پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کس بنا پر عائد کیے گئے ہیں۔ وہ گزشتہ چار برس سے وادی میں کام کر رہی ہیں اور لگاتار سماجی رابطے کی ویب سائٹز پر اپنے پیغام پوسٹ کرتی رہی ہیں۔ ایک انٹرویو میں ان کاکہنا تھا کہ میرا قصور کیا ہے؟ کشمیری خانون صحافی کا کہنا تھا کہ ا نہیں 18 اپریل کو سائبر پولیس اسٹیشن بلایا گیا تاہم میں نے کشمیر پریس کلب سے رجوع کیا جنہوں نے مجھے وہاں نہ جانے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس مسئلے کو انتظامیہ کے سامنے رکھیں گے۔ انفارمیشن ڈائیرکٹر سحرش اصغر نے بھی مجھے پولیس اسٹیشن نہ جانے کو کہا- ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی ایک خاتون ہیں اور پولیس اسٹیشن جانا کیسا ہے بخوبی جانتی ہیں۔ انہوں نے مجھے گھر پر رہنے کی ہدایت دی۔ یو ایل پی اے کے تحت خاتون صحافی پر مقدمہ درج کرنے پر پریس کلب سمیت کشمیر کے صحافی برادری کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی تھی۔ کشمیر کی صحافتی برادری نے اس خاتون صحافی کے خلاف الزامات ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ پیرکوسائبر پولیس نے پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے اس بات کا دعوی کیا تھاکہ مسرت زہرہ نوجوانوں کو اپنے فیس بک پوسٹس کے ذریعے ملک مخالف سرگرمیاں انجام دینے کے لیے اکسا رہی تھیں جس کی وجہ سے امن و قانون میں خلل واقع ہونے کا امکان تھا۔ مسرت زہرہ سرینگر کے علمگری بازار سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون فوٹو جرنلسٹ ہیں جو قومی و بین الاقوامی سطح پر مختلف میڈیا اداروں کے ساتھ فری لانس فوٹو گرافر کے طورپر وابستہ ہیں اور ان کا کام ملکی سطح پر کافی سراہا گیا ہے-دریں اثناء ممتاز غیرسرکاری عالمی تنظیموں نے تینوں کشمیری صحافیوں کیخلاف مقدمات فوری اور غیرمشروط طور پر ختم کرنے پرز وردیا ہے۔ نیویارک میں ایک بیان میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کی ایشیا کے بارے میں سینئر محقق عالیہ افتخار نے کہاہے کہ بھارت کو پولیس کے مذموم ہتھکنڈوں کو روکنے کیلئے اپنے قوانین میں اصلاحات کرنی چاہئیں۔ رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز کے ایشیا بحرالکاہل کے تحقیقی شعبے کے سربراہ Daniel Bastard نے ایک بیان میں بھارتی حکام پر زور دیاکہ وہ پولیس کی طرف سے کسی ٹھوس جواز کے بغیرمسرت زہرہ کیخلاف قائم کئے گئے مقدمات فوری طور پر ختم کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں