Site icon روزنامہ کشمیر لنک

خنجراب نامہ: مظفرآباد سے مظفرآباد تک(آخری قسط)

تحریر: شیخ جواد جامی

اگلے دن بیدار ہو کر ہم نے حسبِ معمول بیڈ ٹی لی اور باہر کیلیئے تیار ہونے لگے۔ آج ہمیں گلگت شہر میں دو اہم امور سر انجام دینے تھے۔ اوّل یہ کہ اپنے ایک عزیز از جاں دوست واجد حسین ڈار کے بھائی میجر ہادی کی شہادت پر ان کے گھر والوں سے تعزیت کرنا تھی۔ دوئم یہ کہ وزیرِِاعلٰی ہاؤس میں وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان جناب بیرسٹر خالد خورشید سے ہماری ملاقات بھی طے تھی۔ سب سے پہلے تو ہم نے گلگت مارکیٹ میں گھومنے کا فیصلہ کیا جہاں سے ہم نے اپنے اپنے گھر والوں کیلیئے معمولی طائف لیے جن کا لینا ہم پر فرض بھی تھا، اس بات کی اہمیت صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو شادی کے بعد اپنے دوستوں کے ساتھ بیچلر ٹرِپ کرتے ہیں۔ ہماری صحبت میں شامل ایک کنوارے دوست اور دنیا بھر کے باقی سِنگل لوگوں کیلیئے راقم کی یہ بات ایک شوشے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ بہر حال ہم اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف شاپنگ کرنے کے بعد واجد حسین استوری کے گھر پہنچ گئے جو شہر کے عین وسط میں واقع ہے۔

واجد بھائی کے علاوہ ان کے گھر کے باقی لوگوں نے ہمارا بھرپور استقبال کیا کیونکہ موصوف کسی کام کے سلسلہ میں اسلام آباد میں موجود تھے۔ میجر ہادی کے والد جو ایک نہایت مدبر اور جاذبِ نظر شخصیت کے حامل انسان ہیں کے چہرے پر اپنے جواں سالہ بیٹے کی جدائی کا صدمہ واضح الفاظ میں کنندہ ہو چکا تھا۔ واجد کے بڑے بھائی شائد ڈار جو ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں سے گپ شپ کرتے ہوئے ہم سب بہت لطف اندوز ہوئے۔ موصوف پاکستان بھر کے علاوہ ہماری ریاست کی سیاسی صورتحال پر ہمارے برابر کی معلومات رکھتے ہیں۔ یہ خاندان بھی بنیادی طور پر کشمیر سے مائیگریٹڈ ہے اور تاحال کشمیری نون چائے سمیت کشمیری ثقافت کے کئی پہلوؤں سے عملی طور پر آشنا ہے۔ اس گھر میں ہم جتنی دیر موجود رہے گھر کے مکینوں سے ہمیں اپنائیت کا احساس تیزی سے بڑھتا رہا اور الوداع ہونے تک ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کوئی بہت اپنوں سے بہت دور جانے والا ہے۔ یہ احساس ہر دو جانب محسوس ہوا۔ گھر سے الوداع ہونے کیلیئے واجد بھائی کی والدہ محترمہ سے دُعا چاہی تو اپنے شہید بیٹے کیلیئے ممتا کی بے لوث محبت کو انکی آنکھوں سے بے اختیار چھلکتے دیکھ کر راقم نے بمشکل ان کے حوصلہ کے واسطے چند الفاظ ادا کیے اور جُھک کر بصد احترام و محبت اجازت چاہی۔

ابھی میزبانوں کا گھر چھوڑا ہی تھا کہ وزیرِ اعلیٰ ہاؤس سے ملنے کیلیئے سندیسہ آ گیا ہم بھی اپنے واپسی کے سفر کا وقت بچانے کی خاطر فوراً وزیرِِاعلٰی ہاؤس پہنچے تو ایک خوش رو، خوش طبع، متحرک اور نوجوان وزیرِِاعلٰی کو منتظر پایا۔ اپنی مسند سے اُٹھے اور آگے بڑھ کر بغل گیر ہوتے ہوئے استقبال کیا۔ موصوف کا تعلق ڈویژن دیامر کے ضلع استور کے گاؤں رٹو سے ہے یہ بھی کشمیری النسل ہیں اور جھاگ شریف کے پیر خانہ سے بیعت ہیں، نیلم ویلی کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ اپنے گاؤں سے شونٹھر، کیل کا فاصلہ 22 کلومیٹر بتاتے ہیں۔

استقبالیہ اور شکریہ کے کلمات کے تبادلہ کے بعد انٹرٹینمنٹ کا اہتمام ہوا اور پھر اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ ہم خنجراب پاس کی سیر کرنے کے بعد ان کے پاس آئے ہیں۔ وہ ہمارے لیے 3 ایام کے ٹور کیلیئے گاڑی اور رہائش کے اہتمام کیلیئے اپنے پی ایس او کو ہدایات جاری کر چکے تھے۔ ہمارے واپسی کے پروگرام کا سن کر بضد رہے کہ ہم کم از کم سکردو ضرور گھوم کر جائیں جہاں شنگریلہ ہوٹل پر قیام و طعام کی پیشکش کرنے لگے مگر ہم تھے کہ ہماری چھٹی ختم ہونے کو تھی اور اگلے دن ہم نے واپس گھر میں حاضری دینی تھی۔ دورانِ گفتگو ان نے بتایا کہ سی پیک کا متبادل روٹ استور سے ہوتا ہوا بذریعہ ٹنل شونٹھر، کیل سے لنک کرے گا۔ متذکرہ منصوبہ کا پی سی ون اپرووڈ اور روڈ کا سروے ہو چکا ہے محض ٹنل کا سروے باقی ہے جس کیلیئے تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ امید کی جاتی ہیکہ اس روٹ کے بننے سے نیلم ویلی کی تقدیر بھی بدلے گی۔

ہم موصوف کے طرزِ تخاطب و میزبانی سے بے حد متاثر ہوئے اور جلد ہی دوبارہ تفصیلی ٹور کرنے کا وعدہ کیا اور انھیں نیلم ویلی آمد کی دعوت دی جو ان نے بخوشی قبول کی اور ہم نے واپسی کیلیئے اجازت چاہی۔ موصوف نے ہمیں الوداع کہنے سے قبل اپنے سٹاف کے ذریعے ایس پی دیامر سے رابطہ کر کے ہماری گاڑی کو رات کے وقت مبینہ خطرہ کے پیشِ نظر زیرو پوائنٹ، چلاس سے بابوسر ٹاپ تک راہداری دینے کا حکم صادر فرمایا۔ ہم نے جناب وزیرِاعلٰی کی جانب سے پُر تکلف میزبانی پر موصوف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہونے کی اجازت چاہی۔

وزیرِاعلٰی ہاؤس سے الوداع ہو کر ہماری اگلی منزل مظفرآباد تھی۔ اب شام کے 4 بج رہے تھے، ہم نے گلگت شہر سے ایک بار پھر پی ایس او کے پٹرول پمپ سے اپنی گاڑی کا فیول ٹینک ری فِل کرایا اور بِنا وقت ضائع کیے واپس مظفرآباد کی جانب نکل پڑے۔ رائے کوٹ برج کے قریب شاہراہِ ریشم پر کافی ہیوی سلائیڈ تھی جس کو کلیئر کرنے کیلیئے بھاری مشینری مصروفِ عمل تھی۔ ڈیڑھ گھنٹہ میں روڈ ٹریفک کیلئے بحال کر دی گئی اور ہم بھی ٹریفک کی ایک لمبی لین کی قیادت کرتے ہوئے آگے چل پڑے۔

 

چلاس سے پہلے گُنر کے مقام پر ایک چھوٹا سا بازار ہے جہاں ہم نے رُک کر ایک ریسٹورنٹ پر قابلی پلاؤ کھایا جو ذائقہ میں حقیقتاً اپنی مثال آپ تھا۔ جیسے ہی ہم زیرو پوائنٹ، چلاس سے اوپر بابو سر ٹاپ کی جانب مڑے تو اب رات کا وقت تھا اور ہلکی ہلکی بارش نے بھی آ لیا تھا تاہم ہم نے معمولی سپیڈ کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔ جلکھڈ کے مقام پر ہم لمحہ بھر کو ٹھہرے اور 4×4 گاڑی کی عدم دستیابی کے باعث نوری ٹاپ کے راستے شاردہ سے ہوتے ہوئے نیلم ویلی نہ جا سکنے پر افسوس کا اظہار کیا اور پھر آگے چل پڑے۔

مزید 2 گھنٹے میں ہم بڑاوائی کے مقام پر پہنچ آئے جہاں ہم نے رُک کر اسی ہوٹل پر چائے پی جہاں ہم نے جاتے ہوئے ناشتہ کیا تھا۔ یہاں سے آگے کا سفر بھی اندھیرے میں جاری رہا اور رات 1 بجے ہم ناران پہنچ آئے۔ یہاں رک کر رات گزارنے کی تجویز بھی سامنے آئی لیکن سفر جاری رکھنے کی تجویز دینے والوں کا پلڑا بھاری رہا اور ہم 3 بجے بالاکوٹ شہر پہنچ آئے۔ یہاں سے آگے کے سفر کا احوال کچھ زیادہ ذہن نشین نہیں ہو سکا کیونکہ راقم جہاں زندگی میں آنے والی ہر مشکل کا مقابلہ ہنستے کھیلتے کر سکتا ہے وہاں رات بھر جاگنے کی مشق راقم کے بس کا روگ نہیں ہے۔

بالا کوٹ سے آگے لمحہ بھر کو آنکھ لگتی اور پھر اگلے لمحے ڈرائیونگ سیٹ پر اونگھتے ہوئے ملک مدثر کے سو جانے کا اندیشہ آنکھیں کھول دیتا۔ خدا خدا کر کے سحری کے وقت جبکہ دنیا سو رہی تھی ہمارے اندر لوہار گلی کے مقام سے اپنے شہر چکری بہک (مظفرآباد) کے گھروں اور پی سی ہوٹل کی لائٹس کو دیکھ کر اپنائیت کا احساس بیدار ہونے لگا۔ بالآخر بفضل اللّٰہ تعالیٰ ہم صبح 4 بجے واپس بخیر و عافیت اپنے گھر پہنچ آئے اور یوں اپنی مملکت کی سرحد کے اس پار ایک اور مملکت عوامی جمہوریہ چین کو دیکھ لینے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔

ختم شد

پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 

دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

Exit mobile version