ہماری زندگی میں آنے والے بہترین لمحات نے ہمیشہ چھپڑ پھاڑ کر ہی دخل اندازی کی کوشش کی۔ یوں ہی ایک روز حلقۂ یاراں کو متحرک پا کر محسوس ہوا کہ ضرور کوئی غیر معمولی موومنٹ کا ارادہ ہے۔ حلقہ یاراں کی تکمیل ہمیشہ ملک مدثر، شیخ فیصل سعدی، تنویر وانی ایڈووکیٹ اور راقم کی موجودگی سے مشروط رہی ہے۔ رات گئے ایک زمہ دار سیلانی دوست کی جانب سے اعلان ہوا کہ ہم اگلے دن سہ پہر مظفرآباد سے چین کو چھونے کیلئے (خنجراب پاس) عازمِ سفر ہوں گے۔ ایک لمیٹڈ گروپ کے کسی ممبر کی کیا مجال کہ کوئی لیت و لعل سے کام لے۔ ایک آدھ نے چوں چراں کا محض سوچا ہی تھا کہ شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم تو ٹھہرے ہی تابعدار۔ اگلے روز گھر سے میلوں دور ہونے کے باعث بمشکل ہی انتہائی ضروری نوعیت کے زادِ سفر کا بندوست کیا گیا۔
خنجراب پاس لگ بھگ 16000 فٹ کی بلندی پر جانے کے واسطے اگست کے مہینہ میں مظفرآباد جیسے گرم ترین شہر میں سے سویٹر اور چادر کا بندوست کرنا ہر گز آسان نہیں ثابت ہوا۔ خیر جیسے کیسے زادِ راہ میسر ہوئی اور شام 4 بجے کے قریب ایبٹ آباد روڈ پر واقع حضرت میاں محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ کے مزارِ اقدس پر حاضری دینے کے بعد لوہارگلی سے واپس مظفرآباد شہر پر طائرانہ نگاہ دوڑائی تو نڑول اسٹیڈیم کے منظر نے دل موہ لیے جسے کشمیر پریمیئر لیگ کے انعقاد کے واسطے بمثلِ دلہن سجایا گیا تھا۔ اگلے ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد جیسے جیسے ہم بالاکوٹ شہر کے قریب ہونے لگے تو ہمسفروں کو دھیرے دھیرے سِلفی کا بخار چڑھنے لگا جو آجکل کی عام وباء ہے۔ شہر کے عین وسط میں بہتے ہوئے دریائے کنہار کو کراس کیا تو ایک دوست کا بخار شدت اختیار کر گیا اور گاڑی فوراً پارک کرنے کا حکم جاری کیا۔ ملک مدثر جو کہ گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے نے حکم بجا لایا مگر موشن توڑنے پر غصّے کا اظہار تاحال سلفی سٹِک کا بندوست نہ کر سکنے کے بہانے ٹور انچارج فیصل سعدی کو آڑے ہاتھوں لے کر کیا۔ ایک راہگیر کے توسط چاروں دوستوں کی مشترک عکس بندی ہوئی اور یوں لگ بھگ 3000 تصاویر پر مشتمل فوٹو البم کا باقاعدہ افتتاح ہوا
راقم اگرچہ سیاحت کا دلدادہ ہے لیکن ہمیشہ غیر متوقع مصروفیات نے تکمیلِ خواہش میں بیریئر کا کردار ادا کیا۔ لہٰذا کاغان و ناران کو دیکھنے کا خواب زندگی میں پہلی بار پورا ہونے جا رہا تھا۔ کاغان بازار میں پہنچ کر پہلے سے طے شدہ پلان کیمطابق چائے کا مزہ لینے کے لیے ایک چھوٹے سے ڈھابہ نما ہوٹل کا انتخاب کیا گیا جو ہماری امیدوں پر پورا اترنے کے قریب قریب رہا۔ ناران دیکھ لینے کا خواب بصورتِ خواب ہی پورا ہوا کیونکہ اب رات چھا چکی تھی اور ہم کنہار کنارے اسکی مخالف سمت میں 120 کی سپیڈ سے عازمِ سفر تھے۔
ناران میں موجود ایک پٹرول پمپ پر گاڑی کا پٹرول ٹینک ری فِل کرنے کا ارادہ کیا تو کارواں میں شامل بھاری بھرکم دوست تنویر وانی ایڈووکیٹ نے خبردار کیا کہ یہاں سے سوچ سمجھ کر فیول کروانا کیونکہ یہاں سمگلڈ پٹرول بھی ملتا ہے جو پراپر ریفائن نہیں ہوتا اور انجن کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم نے موصوف کی خبر کی لاج رکھی اور میل کے اگلے پتھر تک پی ایس او پمپ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ رات کے پہلے پہر ناران بازار اور وہاں موجود ریستوران، ہوٹلز اور سیاحوں کا رَش کم و بیش مال روڈ مری کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ریستورانوں سے آنے والی مختلف کھانوں کی خوشبوؤں نے ہمیں بھی اپنی طرف مائل کیا اور ہم زیادہ سوچ بچار کیے بغیر ہی پنجاب تکہ ہاؤس میں داخل ہو گئے جہاں ہمارے وکیل دوست نے ہمارے ساتھ کامیاب بحث کے بعد قابلی پلاؤ کا آرڈر دے مارا جو ہماری میز پر آتے ہی ہمیں منہ چڑھانے لگا۔ ہم اس پلاؤ کو دیکھتے ہی رہ گئے جبکہ وکیل صاحب نے اپنے حصّے کی پلیٹ پر قابلی پلاؤ سے اپنی کسی پرانی دشمنی کا حساب برابر کیا تاہم مابعد وہ پورے ٹور کے دوران اپنے اس فیصلے پر پشیماں دکھائی دیئے۔
کھانا “دیکھ لینے” کے بعد انتہائی زمہ دار دوست کے نام سے شہرت یافتہ برادرِ اکبر فیصل سعدی جو %0 رسک کے اصول پر زندگی گزارنے کے قائل ہیں، نے یہاں سے آگے رات کا سفر کرنے کی مخالفت کی لیکن ہم وکیل صاحب کی مدد سے آگے بڑھنے میں کامیاب ہو گئے اور عین آدھی رات کو بٹہ کنڈی جا ٹپکے جہاں ہم نے رات ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا۔ صبح واش روم کے نلکے میں گرم پانی کی عدم دستیابی کی وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ گیسٹ ہاؤس کا سٹاف ابھی ہی بیدار ہو کر حمام کی تیاری میں مصروف ہے۔ یہاں بجلی کی سہولت میسر نہیں ہے اس لیے لائٹ اور چارجنگ کیلئے جنریٹر چلایا جاتا ہے جبکہ پانی گرم کرنے کے لیے گراؤنڈ میں رکھے پانی سے بھرے بڑے ٹینک کے نیچے آگ جلائی جاتی ہے اور پھر موٹر کی مدد سے پانی آخری منزل پر نصب ٹینک میں پہنچایا جاتا ہے۔
گیسٹ ہاؤس پر موجود مہمانوں کے کپڑے 100 روپے فی سوٹ کے حساب سے گیس والی استری سے پرِس کیے جاتے ہیں۔ بلاشبہ بابو سر ٹاپ کے راستے گلگت بلتستان کی سیاحت کے دوران نائٹ سٹِے کیلیئے بٹہ کنڈی مناسب ترین مقام ہے جہاں رات بسر کرنے کے بعد صبح سویرے اردگرد کی دلکش پہاڑیوں اور نالے کے دلفریب مناظر (جس کا منبع وادیء جاگراں کی عقبی پہاڑی ہے) فیری لینڈ میں آپکا ایک اور بھر پور دن گزارنے کی ضمانت دیتے ہیں۔
اگلے دن صبح 9 بجے ہم تیار ہو کر محض بیڈ ٹی پر اکتفا کرتے ہوئے اگلی منزل کیلیئے نکل پڑے۔ تھوڑا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک نالے میں آئس برگ کے پاس رُکے جہاں ایک مقامی آدمی آئس برگ کے اندر خود سے بنائے سوراخ میں کولڈ ڈرنکس رکھ کر اس سے ریفریجریٹر کا کام لے رہا تھا۔ ہم بھی وہاں رُکے اور آئس برگ کے پاس کھڑے ہو کر عکس بندی کی اور آگے کو ہو لیے۔
اگلے سٹاپ بڑاوائی میں ہم ناشتہ کرنے کو رکے جہاں مظفرآباد سے گئے ہوئے کچھ دوستوں سے ہماری اچانک ملاقات ہوئی جن نے وہاں پہلے سے موجود ہونے کی دلیل کے ساتھ ہمارے ناشتے کا بِل بھی بھرا۔ ہمارے راستے میں اگلا سٹیشن جلکھڈ (جوڑاں) تھا جہاں سے دائیں جانب ایک دفاعی سڑک نکلتی ہے جو نوری ٹاپ سے ہوتے ہوئے شاردہ، نیلم ویلی جاتی ہے۔ جلکھڈ وہ مقام ہے جہاں پر دو نالے آ کر ایک دریا کا روپ دھارتے ہیں جسے دریائے کنہار کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں سے تھوڑی آگے جا کر گٹی داس کے مقام پر صوبہ خیبر پختونخوا کی حدود اختتام پذیر ہوتی ہے اور گلگت بلتستان کی حد کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس حد کا دو طرفہ علاقہ سر سبز و شاداب ہے جسے قریبی آبادی (چلاس وغیرہ) کے رہائشی ڈھوک کے طور پر استعمال میں لاتے ہیں۔ یہاں ہر سو مال مویشی (گائے، بیل اور بھینس وغیرہ) چارہ چر رہے تھے۔
محترم دوست ملک مدثر نے اردگرد موجود کچھ صحت مند بیلوں کو زوہا بنا کر متعارف کرانے کی بھرپور کوشش کی جس سے ہم نے اپنے تصویری علم کی بدولت اتفاق نہیں کیا اور نتیجتاً ہم درست ثابت ہوئے۔ زوہا شمالی علاقہ جات کا ایک بیل نما خوب رو جانور ہے جو بیل کی طرح کھیتوں میں جوتنے کے علاوہ گھوڑے کی طرح سامان کی نقل و حمل کے کام بھی آتا ہے۔ اب ہماری گاڑی بابو سر ٹاپ کی جانب گامزن تھی۔ ملک مدثر کا کہنا تھا کہ سطح سمندر سے بلند ترین علاقوں میں آکسیجن کی کمی کے باعث گاڑی کے انجن کی کارکردگی میں بھی فرق پڑتا ہے۔ ہمارے آگے چلنے والی کئی گاڑیوں کے سائلنسرز چنگاریاں چھوڑ رہے تھے اور بعض گاڑیوں کو سائیڈ پہ پارک کیا جا چکا تھا تاکہ انجن زیادہ گرم ہو کر کسی بڑے نقصان کا سبب نہ بنیں۔
ملک مدثر اپنی ماہر ڈرائیونگ کے توسط گاڑی کو معتدل سپیڈ پر چلاتے ہوئے بابوسر ٹاپ پر بحفاظت و بروقت پہنچانے میں کامیاب رہے۔ بابو سر ٹاپ سطح سمندر سے 13691 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں بنائی گئی یادگار کے پاس گاڑی روکنے سے پہلے ملک مدثر نے کسی بھی ائیرپورٹ پر جہاز اترتے وقت جہاز کے اندر موجود ائیر ہوسٹس کی جانب سے باہر کے موسم اور درجہ حرارت کے بارے میں معلومات دینے کے انداز میں ہمیں بابو سر کے موسم کے حوالے سے معلومات فراہم کی۔ فراہم کردہ ہدایات کے مطابق ہم حفظِ ما تقدم چادریں اوڑھ کر گاڑی سے باہر اترے اور اپنے آپ کو قدرت کے حسین و جمیل نظاروں کے عین بیچ کھڑا کر کے کیمرے میں محفوظ کیا۔
اس قدر بلند مقام پر غیر ضروری طور پر گاڑی سے باہر گھومنا زیادہ آسان نہیں تھا۔ یہاں ہماری ملاقات اپنے ایک عزیز، ہندکو 1 چینل کے نمائندے علی رضوان خواجہ سے ہوئی جو سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نامور ٹور آپریٹر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ موصوف نے ہمیں یہاں سے آگے کی سڑک کی دشواریوں، موسمی حالات اور علاقے کی اقدار وغیرہ پر تفصیلی بریفنگ دی جو بعد ازاں ہمارے لیے نہایت مفید ثابت ہوئی، ان نے ہمیں مزید وقت ضائع کیے بغیر آگے نکلنے کی تجویز دی جس پر ہم فوری عمل کرتے ہو چلاس کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔
اب ہمارا ڈیڑھ گھنٹے کا سفر اترائی میں تھا، اس طرح کے راستے پر گاڑی کو بھاری گیئر اور بریک کے کم سے کم استعمال کے ساتھ ڈرائیو کرنا مناسب ہوتا ہے۔ بابو سر ٹاپ اور چلاس کا موسم ایک دوسرے سے یکسر متضاد ہے۔ آپکو بابو سر کے ایریا میں باہر کی شدید سردی سے بچنے کی خاطر گاڑی کے شیشوں کو بند رکھنا پڑتا ہے جبکہ زیرو پوائنٹ سے آگے ہوتے ہی آپکو باہر کی شدید گرمی سے بچنے کے لیے اے سی چلا کر شیشوں کو لاک رکھنا پڑتا ہے۔ زیرو پوائنٹ، چلاس سے آگے کا راستہ بالکل سیدھا ہے جو دریائے سندھ کی مخالف سمت چائنہ کی جانب بڑھتا جاتا ہے۔
یہاں سے تھوڑا آگے جاتے ہی تتہ پانی کا علاقہ آتا ہے جہاں سے نیم پختہ سڑک شروع ہو جاتی ہے جو کم و بیش ایک گھنٹے پر محیط قدرے کھٹن مسافت ہے۔ متذکرہ فاصلہ کا بحفاظت طے کرنا اچھے موسم سے مشروط ہے، بارش کے علاوہ تیز ہواؤں کا چلنا بھی شاہراہِ کے اس حصّہ کو مسافروں کیلیئے دشوار بنا دیتا ہے۔ رائے کوٹ سے زرا پہلے شاہراہِ قراقرم کی دائیں جانب ایک دلکش سائیٹ پر کیڈٹ کالج چلاس کی انتہائی خوبصورت عمارت تعمیر کی گئی ہے تاہم کالج میں فی الحال کلاسز کا آغاز نہیں کیا گیا ہے۔ مشہور تفریحی مقام فیری میڈوز کیلیئے جیپ ایبل سڑک رائے کوٹ سے دائیں جانب اوپر کو مڑتی ہے جبکہ شاہراہِ قراقرم دریائے سندھ کو کراس کرتے ہوئے اس کا بائیں کنارہ پکڑتی ہوئی گلگت کی جانب بڑھتی چلی جاتی ہے۔ رائے کوٹ برج کے قریب محدود پیمانے پر ایک ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بھی موجود ہے جو گردونواح کے علاقے کو روشن رکھنے کا اکلوتا ذریعہ ہے۔
(جاری ہے)