سیالکوٹ میں مشتعل شہریوں کے ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں ایک شخص کو قتل کر کے لاش کو آگ لگا دی۔ مارا جانے والا شخص غیر ملکی تھا اور وہ کھیلوں کے ملبوسات بنانے والی معروف فیکٹری میں ایکسپورٹ مینجر تھا۔ واقعہ آج بروز جمعہ 3 دسمبر کی صبح پیش آیا۔
واضح رہے کہ واقعہ سیالکوٹ کے علاقے وزیر آباد روڈ پر پیش آیا۔ مشتعل شہریوں کی بڑی تعداد نے غیر ملکی منیجر کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔ ہجوم نے مقتول کی لاش کو سڑک کے بیچوں بیچ آگ لگا دی۔
سوشل میڈیا پر خوف
اسی دوران واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔ ویڈیو میں جلتی ہوئی لاش کے قریب عوام کے ایک بڑے ہجوم کو کھڑے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
ایک اور ویڈیو میں ہجوم میں شامل لوگ خود کو اسی فیکٹری کا ورکر بتا رہے ہیں۔ فیکٹری ورکرز کے مطابق سری لنکن شہری نے کچھ مقدس اوارق کی توہین کی۔ جس پر وہاں موجود ورکر مشتعل ہوئے اور اس پر حملہ کردیا۔
موقع پر موجودعینی شاہدین کے مطابق مشتعل شہریوں نے اس شخص کو مارا پیٹا اور اس کے بعد اسے نذرِ آتش کردیا۔ مشتعل ہجوم نے لاش کو نذرِ آتش کرنے کے بعد نعرے بازی بھی کی گئی۔
مقتول کون تھا
سوشل میڈیا کے مطابق ہلاک کیے گئے شخص کا تعلق سری لنکا سے تھا۔ اس کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔
وزیر اعلیٰ کا نوٹس
دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لے لیا۔ وزیر اعلیٰ نے انسپکٹر جنرل ( آئی جی) پولیس سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی نفری بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ واقعہ کے محرکات کی تحقیقات کا بھی آغاز کردیا گیا ہے۔
ایک بیان میں عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ واقعے کی ہر پہلو سے تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کی جائے۔
’قانون ہاتھ میں لینے والے عناصر کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔‘
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ قانون شکن عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کرے کی جائے گی۔ ‘
یہ واقعہ سیالکوٹ کے آگوکی تھانے کی حدود میں پیش آیا۔ آگوکی تھانے کے اہلکار اعجاز کے مطابق یہ واقعہ فیکٹری کے اندر پیش آیا۔
’یہ واقعہ گستاخی کا بتایا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے فیکٹری میں لگے کسی بینر کی بے حرمتی کی تھی۔‘
جلال الدین مغل گذشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ فری لانس ملٹی میڈیا رپورٹر کے طور پر انہوں نے آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے متعلق مختلف موضوعات پر رپورٹنگ کی ہے۔ ان کا کام نیو یارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ اردو، وائس آف امریکہ، روزنامہ ڈان اور کئی دیگر قومی اور عالمی اخبارات اور جرائد میں شائع ہو چکا ہے۔