عرب ممالک کی بھارت دوستی روز بہ روز گہری ہوتی جارہی ہے۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے پاکستانی تحفظات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھارت کے ساتھ نہ صرف معاشی اور دفاعی میدان میں تعلقات کو بے پناہ وسعت دی ہے۔ گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات اور بھارت کے درمیان ایک نیامعاہدہ ہوا ۔ طے پایا کہ دونوں ممالک موجودہ تجارتی حجم جو ساٹھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے کو بڑھا کراگلے پانچ برسوں میں سو ارب ڈالر تک بڑھائیں گے۔
سعودی فوج کے سربراہ نے بھی بھارت کا تین روزہ دورہ کیا ۔دونوں ممالک دفاعی میدان میں تعاون کے دائرہ کار کو تیزی سے وسعت دے رہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے خبر آئی کہ متحدہ عرب امارات نے مقبوضہ کشمیر میں سرمایاکاری کے ایک کافی بڑے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ شارجہ سے سری نگر کے لیے فلائٹس بھی شروع کی جاچکی ہیں۔اسلام آباد نے سرکاری طور پر اس پیش رفت پر عمومی طور پر خاموشی اختیارکی تاکہ عرب امارات کے ساتھ کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو لیکن پاکستانی رائے عامہ کے لیے یہ اطلاع رنجیدہ کردینے والی تھی۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں غیرمعمولی سرعت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ عرب ممالک کی لیڈرشپ کو احساس ہے کہ تیل پر دنیا کے انحصار کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ سولر، بجلی کی بیٹریوں اور امریکہ میں دریافت ہونے والے شیل تیل کے وسیع ذخائر بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ وہ تیل کے متبادل معیشت کھڑی کرنے کے لیے سرپٹ دوڑ رہے ہیں بلکہ بعض اوقات سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ چھوٹا ملک ہونے کے باوجود متحدہ عرب امارات کاروبار، تجارت اور سیاحت کے شعبوں میں سعودی عرب سے آگے ہے۔
سعودی عرب کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ کاروباری تعلقات کے فروغ سے محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کے اسٹریٹجک اہداف حاصل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔چنانچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں بھارتی ہنرمندوں کی اپنے ممالک میں آمد کو آسان بنانے کے لیے ملکی قوانین میں تبدیلی کررہے ہیں۔اگرچہ عرب امارات کے ساتھ بھارت کے تعلقات زیادہ گہرے ہیں لیکن اب سعودی عرب بھی اسی راستے پر گامزن ہے بلکہ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتاہے کہ دونوں بھارت کے ساتھ کاروباری مراسم بڑھانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش میں ہیں۔
اگرچہ پاکستان کے ساتھ بھی ان دونوں ممالک کے گہرے دوستانہ اورکاروباری تعلقا ت ہیں لیکن یہ ممالک محض پاکستان کی خاطر اب دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے گریزاں نہیںہیں خاص طور پر میاں نوازشریف کے دور حکومت میں پاکستان نے یمن کے خلاف فوج بھیجنے سے انکار کیا تو عرب امارات کو ناگوار گزرا۔ چنانچہ بھارت کو سنہری موقع ملا کہ وہ ان ممالک میں اپنی رسائی بڑھائے اور پاکستان کے روائتی اثر ورسوخ کو کم کرے۔
عرب ممالک اور بھارت میں ایک قدر مشترک امریکہ کے ساتھ گہرے دوستانہ اور کاروباری روابط ہیں۔ دنیا میں جو نئی سرد جنگ شروع ہوچکی ہے اس میں بقول امریکی حکام کے وہ پاکستان کے ساتھ محدود تعلقات رکھنے کے خواں ہیں نہ کہ کثیر الجہتی تعلقات کے روادار ۔ پاکستان کی چین کے ساتھ شراکت بھی امریکیوں کو بے کل رکھتی ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان دھائیوں سے پائی جانے والی خلیج اب کشیدگی اور تناؤ کے قالب میں ڈھل چکی ہے۔اس طرح دشمن کا دوست بھی دشمن ہوا۔
سعودی عرب چونکہ مسلم دنیا میں اپنی ساکھ برقراررکھنے میں ابھی تک دلچسپی رکھتاہے اور او آئی سی کے ذریعے مسلم دنیا کی سربراہی بھی اپنے پاس رکھنا چاہتاہے لہٰذا وہ پاکستان کے جذبات اور تحفظات کا کسی حد تک احساس کرتاہے ۔علاوہ ازیں اس کے پاکستان کے دفاعی اداروں کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات ہیں۔
گزشتہ کئی عشروں سے دونوں ممالک کی افواج کے مابین مختلف امور پر کامیاب شراکت داری چل رہی ہے لیکن جیسے کہ پہلے عرض کیا کہ ان ممالک نے اپنی معیشت کو تیل کے بجائے سیاحت، کاروبار اور جدید صنعتوں پر استوار کرنا ہے اس لیے وہ پاکستان کی طرف نہیں دیکھ رہے بلکہ ان ممالک سے روابط استوار کرنے کی کوششوں میں ہیں جہاں سے انہیں مالی اور کاروباری مفادات حاصل ہوسکتے ہوں۔ گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں بدعنوانی کا راج رہا۔ راہبر ہی راہ زن تھے ۔ سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر رہا۔ سیاست دان اور ریاستی اداروں کے باہمی ٹکراؤ اور عداوت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ۔ سیاسی جماعتوں کی مسلسل چپقلش نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے ہی نہیں دیا۔ چنانچہ بمشکل پورے سال پچیس ارب ڈالر سے زیادہ برآمدات تک نہ کرسکے۔ چنانچہ عرب ممالک کی دلچسپی بھی پاکستان میں کم ہوتی گئی۔ وہ ایسی مارکیٹ تلاش کررہے ہیں جہاں وہ سرمایہ کاری کرسکیں اور جہاں کے ہنرمندوں اور سیاحوں کو اپنی ترقی کے سفر میں ہمسفر بناسکیں۔ کسی کو دوش دینے کے بجائے پاکستان کو اپنا گھر سیدھا کرنے پر دھیان دینا ہوگا۔ سیاسی عدم استحکام نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہر حکومت کو دھڑکا لگا رہتاہے کہ وہ آج گئی کہ کل گئی۔
بے پناہ وسائل اور استعداد کے باوجود پاکستان ترقی کی منزلیں طے کرنا تو دور کی بات اس سیڑھی پر نہیں چڑھ پاتا کیونکہ ہماری داخلی لڑائیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ہیں۔ بیرونی طاقتیں بھی اس صورت حال میں اپنا لچ تلتی ہیں۔شورش کو ہوا دے کر جلتی پر تیل ڈالتی ہیں۔علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ مضبوط معیشت تعلقات کے لیے جامع فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ محض مذہبی، تاریخی اور سماجی رشتوں پر ہی انحصارعصر حاضر میں کافی نہیں۔
ارشاد محمود راولاکوٹ/اسلام آباد میں مقیم معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے سیکرٹری اطلاعات اور جموں و کشمیر لبریشن سیل کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہیں۔