مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی حراست میں جبری لاپتہ شہریوں کی 8ہزار سے تجاوز کر گئی

اے پی ڈی پی نے 2019 کوجبری لاپتہ شہریوں کا سال قرار دے دیا ۔ شہریوں کی بازیابی کا مطالبہ
019 اس سال گھرگھر لاپتہ افرادکو یاد کیا جائے گا۔ ہرماہ کی 10تاریخ کو خاموش احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔
بھارتی فوج کی حراست میں جبری لاپتہ شہریوں کے لواحقین کی تنظیم اے پی ڈی پی نے منفرد کلینڈر جاری کر دیا
کلینڈر میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کی تفصیلات درج ہیں سر ورق پر ایک والدہ کی اپنے لخت جگر کی تصویر ا ہے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی حراست میں جبری لاپتہ شہریوں کی 8ہزار سے تجاوز کر گئی ہے ۔بھارتی فوج کی حراست میں جبری لاپتہ شہریوں کے لواحقین کی تنظیم اے پی ڈی پی نے 2019 کوجبری لاپتہ شہریوں کا سال قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس سال گھرگھر لاپتہ افرادکو یاد کیا جائے گا۔ ہرماہ کی 10تاریخ کو خاموش احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔بھارتی فوج کی حراست میں جبری لاپتہ شہریوں کے لواحقین کی تنظیم اے پی ڈی پی نے لاپتہ ہوئے افراد کی یاد میں اپنی نوعیت کا منفرد کلینڈر جاری کیا ہے۔ کلینڈر میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کی تفصیلات درج کی گئی ہیں۔کلینڈر کے سر ورق پر ایک والدہ کو اپنے لخت جگر کی تصویر اٹھائے دکھایا گیا ہے۔جنوری کے سر ورق پر بارہمولہ کے جانباز پورہ سے تعلق رکھنے والے محکمہ پی ایچ ای کے عارضی ملازم حبیب اللہ شاہ کا خاکہ ہے،جبکہ اہل خانہ کے مطابق35برس کے حبیب اللہ کو28جنوری2000کو باغ اسلام میں مقیم فوج کی28آر آر سے وابستہ اہلکاروں نے کپٹن راہل کی قیادت میں گھر سے اغوا کیا اور بعد میں لاپتہ کیا ۔اہل خانہ کے مطابق اس واقعے سے متعلق پولیس تھانہ بارہمولہ میں کیس بھی درج کیا گیا اور آج بھی انکی اہلیہ اور دیگر افراد خانہ انکے واپس لوٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ فروری کے صفحہ پر شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع میں لون محلہ بالا اجس کے محمد اکبر لون کو تصویر ہے جس کے بارے میں ائے پی ڈی پی کا کہنا ہے کہ انہیں فوج کی14آر آر سے وابستہ اہلکاروں نے3فروری1999 کو حراست میں لیا،جبکہ اہل خانہ نے معاملے کی نسبت 18فروری کو پولیس تھانہ بانڈی پورہ میں ایف آئی آر درج کرنے کے علاوہ محمد اکبر کی بازیابی اور گرفتاری سے متعلق ضلع کورٹ بارہمولہ میں بھی عرضی دائر کی۔انکی اہلیہ ہنوز اپنے شوہر کا راستہ تک رہی ہے۔ سرحدی ضلع کپوارہ کے گنڈ کرالہ پورہ سے تعلق رکھنے والے غلام قادر شیخ کا خاکہ معہ احوال گرفتاری مارچ کے صفحہ پر درج ہے۔ غلام قادر کے بارے میں انکی والدہ کا کہنا ہے کہ35برس کے ڈیلی ویجر کو پنج گام کیمپ کپوارہ سے وابستہ14راجپوت نے8مارچ کو گھر سے گرفتار کیا،اور بعد میںوہ دوران حراست لاپتہ ہوئے۔اہل خانہ کے مطابق اس سلسلے 9اگست2000 کو ترہگام پولیس تھانے میں افراد خانہ نے واقعے کی نسبت کیس درج کیا،جبکہ بعد میں اہل خانہ نے ریاستی ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا۔ غلام قادر شیخ کی والدہ اور اہلیہ انصاف کے منتظر ہیں ۔اپریلمہینے کے ورقپر سرینگر کے مہجور نگر سے تعلق رکھنے والے ہمایوں آزاد کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔آزاد کی اہلیہ صفیہ کے مطابق20اپریل1993کو انکے شوہر کو مہجور نگر پل پر مقیم سرحدی حفاظتی فورس کی137ویں بٹالین کے اہلکاروں نے دیگر دو ساتھیوں سمیت حراست میں لیا۔صفیہ کے مطابق ہمایوں آزاد کے ہمراہ گرفتار کئے گئے دونوں ساتھیوں کو ایک سال بعد رہا کیا گیا،تاہم ابھی تک ہمایوں آزاد کا کوئی بھی آتہ پتہ نہیں چلا۔انہوں نے کہا کہ انکے شوہر کی گرفتاری کے ساتھ ہی اہل خانہ نے پولیس تھانہ صدر میں20اپریل1993کو ایف آئی آر درج کیا،جبکہ ریاستی ہائی کورٹ کے دروازے پر بھی دستک دی۔صفیہ اور انکا بیٹا ابھی بھی آزاد کا انتظار کر رہے ہیں۔اس کلینڈر کے ماہ مئی میں بارہمولہ کے درنگ بل علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد اشرف شیخ کا خاکہ نمایا کیا گیا ہے۔ محمد اشرف کی والدہ کے مطابق انکے18برس کے لخت جگر کو2مئی1990کو بونیار اوڈی میں قائم فوجی کیمپ سے وابستہ اہلکاروں نے حراست میں لیا،جس کے بعد اگر چہ اہل خانہ نے پولیس تھانہ بارہمولہ سے کیس درج کرنے کیلئے رجوع کیا،تاہم انہوں نے کیس درج نہیں کیا،انکی والدہ آج بھی اپنے بیٹے کے غم میں نڈھال ہیں اور اس کا راستہ تک رہی ہے۔۔ ماہ جون میں شہر خاص کے کنہ دیور حول کے رہائشی اور پیشے سے درزی غلام نبی بٹ کا خاکہ کلینڈر میںشائع کیا گیا ہے۔ اہل خانہ کے مطابق غلام نبی کو8جون1992کو باغعلی مردان مل میں مقیم سرحدی حفاظتی فورس کی107ویں بٹالین سے وابستہ اہلکاروں نے گھر سے گرفتار کیا،جبکہ اہل خانہ نے12جون1995کو پولیس تھانہ صدر میں ایف آئی آر درج کیا،اہل خانہ بالخصوص انکی والدہ ابھی بھی اپنے بیٹے کی جدائی میں تڑپ رہی ہیں۔ ماہ جولائی میں کینہ ہامہ نوگام چاڈورہ سے تعلق رکھنے والے پیشے سے ایک ڈرائیور عبدالرشید وانی کا خاکہ معہ احوال کلینڈر میں پیش کیا گیا ہے۔کلینڈر پر تحریر کے مطابق عبدارشید وانی کو7جولائی1997کو فروٹ منڈی بائی پاس سرینگر سے فوج کی218گرینیڈرس سے وابستہ اہلکاروں نے حراست میں لیا۔اہل خانہ کے مطابق پولیس سے بار بار درخواستوں کے بعد2000میں پولیس تھانہ پارمپورہ میں ایف آئی آر درج کرنے میں کامیاب ہوئے،جبکہ ریاستی ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا،تاہم ابھی تک عبدالرشید وانی کا کوئی بھی سراغ نہیں ملا۔ اگست میں جنوبی ضلع اسلام آباد(اننت ناگ) کے کولر پہلگام کے محمد شفیع بٹ کی تصویر کلینڈر پردکھائی گئیہے،جبکہ ان کے اہل خانہ کے بعد محمد شفیع کو13اگست2001کو سری گفوارہ میں مقیم سی آر پی ایف کیمپ نے حراست میں لیا،اور حراست کے دوران لاپتہ کیا گیا۔اہل خانہ نے پولیس تھانہ سری گفوارہ میں ایف آئی بھی درج کیا ہے،اور انکی اہلیہ کے علاوہ دختر اور فرزند آج بھی ان کی راہ تک رہے ہیں۔ستمبر میں مشتاق احمد شاہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کو فوج نے مبینہ طور پر لالچوک اسلام ااباد(اننت ناگ) سے25 ستمبر1996کو حراست میں لیا تھا،جبکہ اہل خانہ نے نئی بستی اسلام آباد(اننت ناگ) پولیس تھانہ میں کیس بھی درج کیا تھا،مگر آج تک پیشہ سے مزدور مشتاق احمد شاہ کا کوئی بھی اتہ پتہ نہیں ملا۔ کلینڈر میں سرینگر کے نرورہ عید گاہ سے تعلق رکھنے والے طالب علم عابد حسین ڈار کا خاکہ معہ احوال گمشدگی ماہ اکتوبر میں درج کیا گیا ہے۔کلینڈر میں موجود تفصیلات کے مطابق عابد حسین ڈار کو27اکتوبر1996کو کھٹوعہ منڈال،جموں میں15جموں کشمیر لائٹ انفنٹری نے اس وقت حراست میں لیا،جب وہ دیگرطلبہ کے ساتھ اسکول کے ایک دورے پر گئے تھے،تاہم اس کے بعد وہ کھبی واپس نہیں آیا۔نومبر میں بڈگام کے لارکی پورہ سے تعلق رکھنے والے پیشہ سے کسان عبدالرشید پرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں کھاگ میں قائم فوج کے آر آر کیمپ سے وابستہ اہلکاروں نے کئی لوگوں کی موجودگی میں کھیت سے گرفتار کیا،تاہم اس کے بعد اس کو کسی نے نہیں دیکھا۔اہل خانہ کے مطابق اس واقعے سے متعلق انہوں نے کنزر پولیس تھانے میں کیس درج کیا گیا۔ سال کے آخری ماہ دسمبر میں سرینگر کے دھوبی محلہ سے تعلق رکھنے والے طالب علم شوکت جمال ریشی کی تصویر شائع کی گئی ہے،جبکہ شوکت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یکم دسمبر1995 کو ہامرے پٹن میں مقیم فوج کی آر آر کیمپ سے وابستہ اہلکاروں نے حراست میں لیا،اور ما بعد اس کو مبینہ طور دوران حراست لاپتہ کیا گیا۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق فوج نے افراد خانہ کو دھمکی دی کہ انسانی حقوق کے مقامی کمیشن میں کیس درج نہ کریں،تاہم اہل خانہ نے کمیشن سے رجوع کیا

اپنا تبصرہ بھیجیں