بھارتی قوانین کا مقبوضہ کشمیر میں نفاذ جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے
کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم کی درخواست
سری نگر بھارتی قوانین کو صدارتی حکم نامے کے زریعے مقبوضہ کشمیر میں نفاذ کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم نے ایک پٹیشن عدالت میں دائر کر دی ہے۔ ایڈوکیٹ محمد اشرف بٹ اور ایڈوکیٹ عادل عاصمی نے ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم کی طرف سے ریاستی ہائی کورٹ میں پیش کی گئی عرضی میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزارت داخلہ نے28فروری 2019کو بھارتی آئین کی دفعہ356کی صریحا خلاف ورزی کر کے ریاستی حکومت اور ریاستی آئین کے1954کے حکم نامہ میں ترمیم کی تجویز کی منظوری دی،جس کے تحت بھارتی آئین کی77ویں ترمیم ایکٹ1995اور103ویں ایکٹ2019 کو جموں کشمیر میں نافذ کیا گیا۔عرضی میں کہا گیا کہ بھارتی وزارت داخلہ نے آر ڈی ننس جموں کشمیر ریزرویشن(ترمیم)کو منظوری دی اوراس ترمیم کے تحت ریاستی ریزوریشن ایکٹ2004 میں ترمیم کی گئی۔عرضی میں اس حکم نامہ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارتی آئین زبردستی جموں کشمیر میں نافذ نہیں ہوتا،اور اس کا اختیار دفعہ370کے تحت ریاست کو حاصل ہے،جس میں جموں کشمیر میں بھارتی آئین کو نافذ کرنے کیلئے طریقہ کار فراہم کیا گیا ہے،اور یہ کہ اس میں ریاستی حکومت کی مشاورت یا منظوری ہونی چاہئے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ بھارتی آئین کی دفعہ370کے تحت ریاستی حکومت کا مطلب مہاراجہ یا صدر ریاست ہے ،جو کہ وزرا کی مشاورت کے بعد فیصلہ لینگے،اس لئے کوئی ایک یا ہر ایک صدارتی حکم نامہ جو بھارتی آئین کا حصہ ہو،اور اس کا اطلاق ریاست میں کرنا ہو،کو ریاستی حکومت کی منظوری یا مشاورت لازمی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ77ویں اور103ویں آئینی ترمین،جو کہ بھارتی آئین کا حصہ ہے،کا اطلاق ریاستی حکومت کی منظوری اور مشاورت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔20جون2018 کے بعد پہلے ریاستی اسمبلی کو معطل کیا گیا اور بعد میں تحلیل کیا گیا،اس لئے ریاست میں وزرا کی کونسل موجود نہیں،اور ریاستی گورنر کو دفعہ370کے تحت اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی آئینی ترمیم کو منظوری دے۔عرضی میں وزرا کی کونسل کو کسی بھی منظوری کیلئے لازمی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مہاراجہ ریاست کا خود مختار سربراہ تھا،تاہم اس کے باوجود انہوں نے5مارچ1948کے حکم نامہ میں وزرا کونسل کا اندارج کیا،اور اسی کونسل کو ریاستی ذمہ داریوں سونپ دیں۔انہوں نے کہا کہ مہاراجہ میں وزرا کونسل کی سفارش پر ہی عمل درآمد کرسکتا ہے۔عرضی میں کہا گیا کہ دفعہ370 شق 1(ب) میں جموں کشمیر کے گورنر کا کوئی بھی وجود نہیں ہے،جبکہ وزرا کی عدم موجودگی کے نتیجے میں بھی وہ قانونی طور پر کوئی منظوری دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔عرضی میں کہا گیا کہ گورنر کی طرف سے آئین کی منظوری یکطرفہ کاروائی ہے جو کہ انکے حد اختیار میں نہیں ہے اور غیر آئینی عمل ہیں۔ عرض گزاروں نے کہا ہے کہ بھارتی صدر کی طرف سے بھارتی آئین کی دفعہ370کے تحت جاری کئے گئے حکم نامہ،کے بعد انہیں جموں کشمیر ریزرویشن ایکٹ2004میں ترمیم کا کوئی بھی اختیار نہیں ہے،جو کہ ریاستی عمل کے زمرے میں آتا ہے۔عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ جموں کشمیر ریزرویشن(ترمیم)آر ڈی ننس2019اور آئینی ترمیم آرڈر2019کو غیر قانونی قرار دیکر اور کو منسوخ کیا جائے