مسئلہ کشمیر کے متعلق امریکی پالیسی میں بدل رہی ہے بھارتی اخبار ہندو کا انکشاف
بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی میں کسی خفیہ تبدیلی کے اشارے ملتے ہیں۔ہندوستان ٹائمز
مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش پر بھارتی ذرائع ابلاغ میںکہرام
نئی دہلی پاکستان کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے موقع پر جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کرانے کی پیشکش کی تو بھارتی ذرائع ابلاغ میںکہرام مچ گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بھارتی ٹی وی چینل نے تو سرخی لگا دی کہ امریکہ نے بھارت پر کشمیر بم گرادیا ہے۔ کے پی آئی کے مطابق بھارتی سیاستدانوں اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے ڈالے جانے والے بے سر و پا شور شرابے سے مجبور ہوکر بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کبھی بھی امریکی صدر سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست نہیں کی ہے۔انہوں نے گھسا پٹا روایتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تمام درپیش مسائل پر صرف دو طرفہ بات چیت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں شملہ معاہدے اور لاہور اعلامیہ کا بھی ذکرکیا۔امریکی صدر کے بیان کے فوری بعد بھارتی ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتوں نے شور شرابہ شروع کردیا تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس ضمن میں وضاحت پیش کرے جو وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے کرادی گئی لیکن گزشتہ 12 گھنٹوں میں خود بھارت میں سنجیدہ حلقوں کی جانب سے یہ سوالات کیے جانے لگے ہیں کہ کیا بی جے پی کے حکومت اپنی روایتی کشمیر پالیسی میں تبدیلی لا رہی ہے؟ اور کیا امریکہ بھی جنوبی ایشیا کے فلیش پوائنٹ کے متعلق ماضی سے ہٹ کر سوچنے لگا ہے؟بھارت کے مقر اخبار ہندوستان ٹائمز نے اس ضمن میں خبر کے ساتھ ہی اپنی تجزیاتی رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے بھارتی حکومت کی کشمیر پالیسی میں کسی خفیہ تبدیلی کے اشارے ملتے ہیں۔ہندوستان ٹائمز کا یہ تبصرہ دال میں کچھ کالا کا واضح عکاس ہے جو مقبوضہ وادی چنار کے باسیوں کے لیے یقینا سفید ثابت ہو گا۔مقبوضہ وادی کشمیر کے سابق وزیراعلی اور بھارت نواز نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ملاقات سے پیدا شدہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں استفسار کیا کہ کیا اس بیان پر بھارتی حکومت صدر ٹرمپ کو جھوٹا قرار دے گی؟ اور یا پھر حقیقت میں بھارت نے تیسرے فریق کی ثالثی قبول کرتے ہوئے خفیہ طور پر اپنی روایتی پالیسی تبدیل کر لی ہے؟سابق وزیراعلی کے اندازے اس لحاظ سے درست ثابت ہوئے ہیں کہ پہلے مرحلے میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکی صدر کو جھوٹا قرار دے دیا ہے۔بھارت کی سابق حکمراں جماعت کانگریس کے ترجمان رندیپ سورج والا نے اس ضمن میں کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے کسی تیسری طاقت کو ثالثی کی درخواست دینا بھارت کے قومی مفادات کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وزیر اعظم مودی کو اس کا جواب دینا ہو گا۔بھارت میں دائیں بازو کی جانب جھکا رکھنے والے ممتاز بھارتی اخبار دی ہندو نے لگی لپٹی بغیر لکھا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی جانے والی پیشکش اس بات کی غماز ہے کہ مسئلہ کشمیر کے متعلق امریکی پالیسی میں بدل رہی ہے۔بھارت کے نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی نے اس ضمن میں اپنی خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ تیسرے فریق کی ثالثی کی مخالفت کی ہے جب کہ پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت کئی بین الاقوامی فورمز پر زور دیا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر میں ثالثی کا کردار ادا کریں۔درحقیقت دیکھا جائے تو مسئلہ کشمیر پر پاکستانی مقف کی جیت ہوئی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ازخود ثالثی کی پیشکش کی ہے۔بھارت کے ممتاز نشریاتی ادارے نیوز 18 کے مطابق وزارت خارجہ کی جانب سے کی جانے والی وضاحت کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے ناکافی قرار دے کر یکسر مسترد کردیا ہے۔دلچسپ امر ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی رواں سال ستمبر میں امریکہ کا سرکاری دورہ کرنے والے ہیں۔بزرگ کشمیری رہنما اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے مسئلہ کشمیر اٹھانے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وزیراعظم عمران خان کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں اپنی زندگی میں پہلا لیڈر دیکھ رہا ہوں جس نے ہم نہتے کشمیریوں کے لیے آواز اٹھائی ہے۔سید علی گیلانی نے اپنے پیغام میں کہا کہ امریکہ کو کشمیر کی آزادی کے لیے کردار ادا کرنا پڑے گا اور ہم امریکہ میں مسئلہ کشمیر اٹھانے پر پاکستان کے شکر گزار ہیں۔
Load/Hide Comments