کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے گرد ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ امریکہ، چین، روس اور ایران کے مفادات بھی پائے جاتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ کی طرف سے ہند پاک مذاکرات میں ثالثی کی پیشکش پر بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں ہند نواز اور ہند مخالف سیاسی حلقوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی امریکہ میں موجودگی کے دوران صدر ٹرمپ نے کشمیر کے تنازع میں دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کے لیے آمادگی کا اظہار کر کے کشمیر کے سیاسی حلقوں میں توقعات کی لہر کو جنم دیا ہے۔
ٹرمپ صاحب نے بیان دیا کہ طویل تصفیہ طلب مسئلہ کشمیر پر کچھ کر سکوں اور بھارت پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلوقات میں بہتری لا سکوں تو مجھے خوشی ہو گی۔
پاکستان نے تو پہلے سے ہی موددی صاحب اور اس قبل کی وزیر اعظموں کو کشمیر پر بات چیت کرنے کا کہتا رہتا ہے۔ موددی نے وزیر اعظم بنتے ہی کشمیریوں کے خلاف پہلے سے زیادہ ظلم اور کشمیر مخالف اقدامات کرنے شروع کر دیے ہیں۔کشمیر کے لیے بھارت کے آئین میں شک نمبر ٣٧٠ اورA ٢٥ خصوصی طور پر رکھی ہوئی ہے۔جس کے تحت کشمیرے باشندے کے علاوہ اور کوئی بھی کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا۔ اس کو پہلے مہارجہ کشمیر نے، پھرکشمیر کی پارلیمنٹ نے بھی منظور کیا ہوا ہے۔ موددی حکومت نے آتے ہی اس شک کو ختم کرنے کی مہم چلائی ہوئی ہے۔
موددی صاحب جو دہشت گرد ہندو تنظیم آر ایس ایس کے بنیادی رکن ہیں۔ آر ایس ایس کے حکم پر اپنی انتخابی منشور میں کشمیر بارے اس شکوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اس کے خلاف سارے کشمیری جن میں حیریت کانفرنس ، لیبریشن فرنٹ، سابق حکمران کشمیرمحبوبہ مفتی اور تین پشتوں سے کشمیر کے حکمران فاروق عبداللہ بھارت کے سامنے گھڑے ہو گئے ہیں۔