اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو چار مقدمات میں تھانے جا کر بیان ریکارڈ کروانے کا حکم دیا ہے۔
ان مقدمات میں سرکاری ٹیلی ویژن سٹیشن پی ٹی وی پر حملہ، اسلام آباد پولیس کے ایس ایس پی آپریشن عصمت اللہ جونیجو کو تشدد کا نشانہ بنانے اور پارلیمٹنٹ ہاؤس پر حملہ کرنے کے علاوہ پولیس کی تحویل سے ملزمان کو چھڑانے کے مقدمات شامل ہیں۔مقدمات سنہ 2014 میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کے دوران درج کیے گیے تھے۔ ملزم عمران خان کو ان مقدمات میں اشتہاری قرار دیا گیا تھا تاہم وہ گذشتہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
ان مقدمات میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔
عدالت نے ملزم کے وکیل بابر اعوان سے استفسار کیا کہ کیا ان کے موکل نے تفتیشی افسر کے سامنے جواب جمع کروادیا ہے؟
جس پر عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل نے تحریری طور پر ایک بیان ان مقدمات کے تفتیشی افسر کو جمع کروا دیا ہے۔
سرکاری وکیل نے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فوجداری مقدمات میں اس وقت تک بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک ملزم ذاتی حیثیت میں تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہ ہو۔
عمران خان کے وکیل نے عدالت سے استثنیٰ کی درخواست کی جس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے ملزم کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ضمانت کی درخواست پر استثنیٰ دی جاسکتی ہے جس پر بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ وہ ابھی عمران خان کو بلوا لیتے ہیں۔
اس مکالمے کے کچھ دیر کے بعد عمران خان خود عدالت میں پیش ہو گئے۔
عمران خان کے پیش ہونے کے بعد عدالت نے ان مقدمات کے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ وہ کب ملزم کا بیان ریکارڈ کرنا چاہیں گے جس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ جب عمران خان وقت نکالیں۔
عدالت نے تفتیشی افسر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی افسر وہ ہیں عمران خان نہیں۔
عدالت نے تفتیشی افسر کو آئندہ سماعت سے پہلے ملزم عمران خان کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دیا اور ان مقدمات کی سماعت 7 دسمبر تک متلوی کردی۔
Load/Hide Comments