امریکا میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی کی ڈاکٹر عافیہ سے ٹیکساس جیل میں ملاقات 2 گھنٹے جاری رہی
ایسی دوائیں بھی دی جاتی ہیں جس سے عافیہ اکثر بے ہوش رہتی ہیں
ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے جسمانی و جنسی تشدد کی تحقیقات کے لیے امریکی محکمہ انصاف کو خط لکھا جائے، پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی
ایک باعمل مسلمان خاتون کو ایسی جیل میں رکھنا ناقابل قبول ہے جہاں ہر وقت جنسی زیادتی کا خطرہ موجود ہو اور یہ سلسلہ اب بند ہوجانا چاہیے
ہوسٹن امریکی جیل میں قید پاکستانی ڈاکٹرعافیہ صدیقی پر جنسی اور جسمانی تشدد کی تصدیق ہوگئی ہے جب کہ انہیں ایسی دوائیں بھی دی جاتی ہیں جس سے وہ اکثر بے ہوش رہتی ہیں۔ایک میڈیا رپورٹ میں اہم دستاویز کے مطابق امریکا میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے 23 مئی کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کی ہے۔ قونصل جنرل نے ملاقات کے مندرجات کو خفیہ رپورٹ کی شکل دے کر حکام کے حوالے کردیا ہے جس کے مطابق ملاقات میں عافیہ صدیقی نے دوران حراست جنسی اور جسمانی تشدد کے خوف اور خدشات کو بیان کیا ہے۔رپورٹ میں پاکستانی اعلی سفارتی حکام کو سفارش کی گئی کہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کیلیے معاملے کو ہر حال میں اعلی سطح پر اٹھایا جائے تاکہ وہ اپنی بقیہ قید کی مدت پاکستان میں پوری کرسکیں جہاں کم از کم ان کی عزت تو محفوظ ہو جس پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے جبکہ وہ اپنی والدہ و بچوں سے بھی ملاقات کرسکیں جن کی شکل دیکھے انہیں 8 سال ہوچکے ہیں۔ رپورٹ میں عافیہ صدیقی کی بدترین صورتحال کی عکاسی کی گئی ہے کہ انہیں اپنی عزت و ناموس بچانے کے لیے کتنے جتن کرنے پڑتے ہیں۔امریکی ریاست ہوسٹن میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے جسمانی و جنسی تشدد کی تحقیقات کے لیے امریکی محمکہ انصاف کو خط لکھا جائے اور ان کی جان و عزت کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ان کی کوٹھری میں امریکی جیل کے مرد اہلکاروں کو داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔ ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ جیل کے مرد اہلکار ان کے سامان پر پیشاب کردیتے ہیں۔پاکستانی خاتون سفارتکار نے عافیہ صدیقی کی حالت زار کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ جیل میں ہر شخص اور چیز سے خوفزدہ اور ڈری سہمی رہتی ہیں۔ جیل عملہ ان کی پرائیوسی کی خلاف ورزی کرتا ہے، ان سے ان کی چیزیں چھین لیتا ہے، انہیں ہر وقت جسمانی و جنسی تشدد اور منظم آبروریزی کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔عائشہ فاروقی نے اپنی دستاویز میں لکھا ہے کہ زیر حراست عافیہ صدیقی کو ہر وقت جسمانی اور جنسی طور پر تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا خوف رہتا ہے جب کہ ایک باعمل مسلمان خاتون کو ایسی جیل میں رکھنا ناقابل قبول ہے جہاں ہر وقت جنسی زیادتی کا خطرہ موجود ہو اور یہ سلسلہ اب بند ہوجانا چاہیے۔ عائشہ فاروقی کے مطابق ملاقات کے دوران ڈاکٹر عافیہ صدیقی دو گھنٹوں تک بات چیت کرتی رہیں اور تمام سوالات کا جواب دیتی رہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹرعافیہ صدیقی نے اپنے وکلا کیتھی اور اسٹیوینز پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا اور اپنے اہل خانہ سے قانونی ٹیم کو بدلنے کی درخواست کی۔ ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ انہیں صرف وکیل ٹینا فوسٹر پر اعتماد ہے جو مسلمان ہیں اور ان سے مخلص بھی ہیں جنہوں نے ان کے بیٹے احمد کی افغانستان سے رہائی میں مدد کی تھی۔عائشہ فاروقی کے مطابق ملاقات میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کہا کہ گفتگو ریکارڈ ہونے کی خوف کی وجہ سے وہ کراچی میں مقیم اپنی والدہ کے ساتھ فون پر بات نہیں کرتیں۔ دوران حراست اپنی صورت حال کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جیل حکام ان کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اور ان کو جنسی اور جسمانی طور پر ہراساں کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ گھر والوں کو ان کے فون ٹیپ کیے جاتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کو کوئی ایسی دوائی دی جاتی ہے جس سے وہ اکثرنیم بے ہوش رہتی ہیں۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے عائشہ فاروقی کو بتایا کہ جیل کے عملے نے کئی بار ان پر جنسی حملوں کی کوشش کی ہے اور ان کا اسکارف بھی نوچا گیا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ امریکا میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ان کی کوئی مدد نہیں کی اور نہ ہی ان کی رہائی میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ بلکہ حسین حقانی اور اس کا معاون خصوصی 2010 میں حکومت پاکستان کی طرف سے ان کے مقدمے کے لیے مختص کی گئی 20 لاکھ ڈالر کی رقم بھی ہڑپ کرگئے۔ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ انہوں نے 2011 میں اپنی سزا کے خلاف اپیل اس لیے نÛ
Load/Hide Comments