اسلام آباد کی ایک عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو حکم دیا ہے کہ نازیبا ویڈیوسکینڈل معاملے پر پاکستان تحریک انصاف کے راہنما سردار تنویر الیاس کے خلاف پاکستان سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔تنویر الیاس وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی اور آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے حلقہ ایل اے 15 وسطی باغ سے امیدوار ہیں اور ان پر اسلام آباد کے ایک پراپرٹی ڈیلر کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے لیے وٹس ایپ پر نا زیبا پیغامات اور ویڈیوز بھیجنے کا الزم ہے۔
پراپرٹی ڈیلر خواجہ فہیم کے وکیل ابراہیم ارشد خان نے کشمیر لنک کو بتایا کہ ان کے کلائنٹ نے مارچ 2021 میں تنویر الیاس کے خلاف جنسی ہراسانی کے مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست دی تھی تاہم ایف آئی اے نے ٹھوس شواہد ہونے کے باوجود مقدمہ درج نہیں کیا۔
اسلام آباد کی ایک عدالت نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے راہنما وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی اور آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے حلقہ ایل اے 15 وسطی باغ سے امیدوار سردار تنویر الیاس کے خلاف پاکستان سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔ pic.twitter.com/QwFYG7d8cW
— Daily Kashmir Link (@LinkKashmir) July 7, 2021
ایف آئی اے نے عدالت میں خواجہ فہیم کے موبائل فون کی جو فرانزک رپورٹ پیش کی اس میں بھی نازیبا پیغامات اور ویڈیو بھیجے جانے کی تصدیق کی ہے تاہم ایف آئی اے مقدمہ کے اندراج میں مسلسل تاخیری حربے اپنا رہی تھی جس پر ان کے کلائنٹ نے دوبارہ عدالت سے رجوع کیا۔
6 جولائی کے اپنے فیصلے میں عدالت نے لکھا کہ ایف آئی اے کی عدالت میں جمع کردہ رپورٹ کے مطابق موبائل فون فرانزک لیبارٹری بھیجا گیا اور فرانزک رپورٹ کے مطابق جنسی ہیجان انگیز ویڈیو واٹس ایپ پر موصول ہونے کی تصدیق ہوئی۔ اس رپورٹ کے باوجود ایف آئی نے مقدمہ درج کرنے کے بجائے بودی دلیلوں کی بنیاد پر مقدمہ درج کرنے میں تاخیر کی کہ ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ حالانکہ تحقیقات کے لیے پہلے ہی درکار وقت دیا جا چکا ہے۔
عدالت نے لکھا کہ، ‘یہ ایف آئی اے کی ذمہ داری تھی کہ 7 مئی 2021 کے عدالتی احکامات کی روشنی میں تحقیقات مکمل کرے مگر بادی النظر میں کسی نے اس معاملے دلچسپی نی دکھائی۔’
عدالت نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ بغیر کسی تاخیر کے ذمہ دار کے خلاف فوری طور پر ایف آئی آر درج کی جائے۔
عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ اگر دوران تفتیش پٹیشنر کی جانب سے پیش کردہ مواد اور شواہد غلط ثابت ہوں تو ایس ایچ او کو یہ اختیار ہے کہ وہ پیٹیشنر کے خلاف بھی تحت ضابطہ کاروائی عمل میں لائے۔