‘ٹیم ہارے گی تو کوچز پر تنقید بھی ہو گی اور سوالات بھی اٹھیں گے’

قومی ٹیم کے سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید کا کہنا ہے پاکستان کرکٹ کا برا حال ہو چکا ہے، پی سی بی کو نا احساس ہو رہا ہے اور نا اس کی آنکھیں کھل رہی ہیں۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کی ون ڈے سیریز میں شکست کے بعد جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عاقب جاوید نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ مینجمنٹ نے دو برس قبل ایک چلتے ہوئے سسٹم کو روکا، جس طریقے کو روکا گیا تھا اس کے نتائج اب سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں، عام لوگوں کو تو اس کا احساس ہی نہیں ہے، احساس تو پی سی بی کو بھی نہیں ہو رہا اور نا ان کی آنکھیں کھل رہی ہیں، آج قومی ٹیم کی کارکردگی اسی کی وجہ سے ہے۔

عاقب جاوید نے کہا کہ نچلی سطح پر کام نہیں ہو رہا، اکیڈمیز لگانے کا رحجان ختم ہو گیا ہے، پہلے تین تین ماہ کی اکیڈمیز مختلف شہروں میں لگا کرتی تھیں، ان میں سے کھلاڑی سامنے آتے تھے، اب وہ سلسلہ روک دیا گیا ہے، کھلاڑیوں کی تکنیک پر کہاں کام ہو رہا ہے، پاکستان کے پاس کوئی بیٹسمین نہیں ہی نہیں ہے، سیم اور باؤنس میں تکنیک ایکسپوز ہو جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ورلڈکپ کے لیے ٹیم بنانے کے لیے انہوں نے کیا کیا ہے، ایک ٹیم ہی بنا لو چاہے وہ ہارے لیکن امید تو ہو گی کہ انہیں موقع ملے گا تو جیت جائیں گے لیکن یہاں کیا ہے ہر سیریز میں ٹیم تبدیل کر دی جاتی ہے، ایک کرکٹر کو کھلائے بغیر اگلےٹور سے باہر کر دیا جاتا ہے، ٹی ٹوئنٹی میں کامیاب کرکٹر کو ون ڈے میں کھلا دیا جاتا ہے۔

سابق فاسٹ بولر نے کہا کہ دنیا ماڈرن ڈے کرکٹ کھیل رہی ہے اور ہم 90 کی دہائی والی کرکٹ کھیل رہے ہیں، جو ہم کھیلا کرتے تھے جب کوئی ٹیم 250 رنز کر جاتی تھی ہم سمجھتے تھے کہ ہم تو اب ہار گئے، انگلینڈ کی وائٹ بال کرکٹ چند برس پہلے خراب تھی، انگلینڈ نے اپنے لیے ایک پلیئنگ زون مقرر کیا، انگلینڈ نے آؤٹ کے ڈر کے بغیر اپنے اسٹرائیک ریٹ کو بہتر بنانے والی کرکٹ کھیلی، یہ سمجھنے کی بات ہے کہ اسٹرائیک ریٹ چھکے مارنے سے نہیں تکنیکی شاٹس سے بھی آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بڑا کہا جاتا تھا کہ فٹنس پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، کہاں گیا وہ سمجھوتہ، شرجیل خان اور اعظم خان جیسی جسامت والے ٹیم میں آسکتے ہیں تو اس سے فٹنس معیار کا اندازہ لگا لیں، ہم آگے جانے کی بجائے اس معاملے میں 60 کی دہائی میں چلے گئے ہیں۔

عاقب جاوید نے کہا کہ قومی ٹیم کے بولنگ کوچ نے اب تک ڈیلیور کیا کیا ہے، حالانکہ قومی ٹیم کے کوچ کے پاس تو وقت ہی بہت ہوتا ہے، وہ بولروں کی کارکردگی کو کام کر کے بہتر بنا سکتا ہے، بہتر کمپوزیشن بنا سکتا ہے لیکن یہاں بولروں کی کمپوزیشن بنائی ہی نہیں گئی بلکہ انہیں خراب کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حارث رؤف پرانے بال سے بولنگ اچھی کرتا ہے اس کے ڈیتھ اوورز اچھے تھے لیکن آپ نے ٹیسٹ کھلانے کے چکر میں اس سے نئے گیند سے بولنگ کروانا شروع کر دی، پہلے اسے ٹی ٹوئنٹی میں تو پکا ہونے دیں، ٹیسٹ بعد میں کھلا لیں، حارث رؤف کی کارکردگی اوپر جانے کی بجائے نیچے جا رہی ہے۔

قومی ٹیم کے سابق فاسٹ بولر نے کہا کہ شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی کو سپورٹ نہیں مل رہی، فرنچائز کرکٹ میں ہمارے پاس بولرز تین دن پہلے آتے ہیں، ہم زیادہ اپنا حصہ نہیں ڈال سکتے، قومی ٹیم کے کوچ کو تو کچھ ڈیلیور کرنا چاہیے، قومی ٹیم کے کوچز پر سوالات بھی اٹھیں گے اور تنقید بھی ہو گی، ٹیم اچھا نہیں کھیلے گی تو کوچز سے ہی سوال ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں