آزاد کشمیر میں ڈاکٹروں اور طبی عملےپر تشدد کے رجحانات میں اضافہ کیوں؟

دس اگست کی صبح ڈاکٹر جمیل ایک ایمرجنسی کال سن کر ہسپتال پہنچے تو داخلی دروازے پر ہی ان کا سامنا درجنوں لوگوں کے ایک ہجوم سے ہوا۔ یہ ہجوم برہم تھا اور اور ان میں سے کچھ کے ہاتھ میں ڈنڈے بھی تھے۔ ڈاکٹر جمیل کے لیے صورت حال غیر متوقع تھی۔ انہوں نے گیٹ پر ہی رک کر مشتعل ہجوم سے بات کرنا چاہی۔ اس دوران دو نوجوان ان پر حملہ آور ہو گئے۔

 کشمیر لنک کو یہ واقعہ سناتے ہوئے ڈاکٹر جمیل نے بتایا کہ، ‘ان میں سے ایک نوجوان نے میر آنکھ پر مکا مارا۔ پھر دوسروں نے بھی حملہ کر دیا۔’

یہ واقعہ آزاد کشمیر کے ضلع باغ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے کورونا آئیسولیشن وارڈ میں پیش آیا جہاں اسی روز ایک مریض کی موت ہوئی۔ یہ مریض ایک مقامی وکیل کا رشتہ دار بتایا جاتا ہے اور اس کے ورثاء کا الزام ہے کہ مریض کی موت ‘ڈاکٹروں کی غفلت ‘ کے باعث ہوئی۔

یہ واقعہ آزاد کشمیر میں آپنی نوعیت کا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی آزاد کشمیر میں کئی ڈاکٹروں اور طبی عملے پر تشدد ہوتا رہا ہے اور گذشتہ سال کورونا وباء کا پھیلاو شروع ہونے کے بعد اس رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ڈاکٹروں اور طبی عملے پر تشدد کے بڑھتے رجحان کے بارے میں جمیل کا خیال ہے کہ، ‘ ہمارے ہاں بعض لوگ محض اپنی برتری ثابت کرنے اوررعب جمانے کے لیے جھگڑا کرتے ہیں۔  کچھ لواحقین مریض کے لیے اپنی مرضی کا علاج چاہتے، حالانکہ یہ طے کرنا ڈاکٹر کا کام ہے کے کس مریض کو کس طرح کا علاج چاہیے۔ عام آدمی کو نہیں پتا کہ اس علاج میں ردو بدل سے کیا پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔’

ڈاکٹر جمیل کے مطابق ڈاکٹروں پر تشدد کے کے رجحان میں اضافے کی ابتداء 2005 میں اس علاقے میں آنے والے زلزلے سے ہوئی جس نے خطے میں لوگوں کی نفسیات پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے۔

ڈاکٹر جمیل پر تشدد کے مرکزی ملزم سردار اعظم حیدر ایڈوکیٹ پیشے کے لحاظ سے ایک وکیل ہیں اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کم از کم دو بار صدر منتخب ہو چکے ہیں۔  اس واقعے کی ایف آئی آر تو درج ہوئی ہوئی، مگر نامزد ملزمان میں سے کوئی گرفتار نہیں ہوا۔

پولیس کے بقولاس واقعے کی اطلاع ملنے پر جب پولیس موقع پر پہنچی تو لوگ منتشر ہو چکے تھے۔

باغ سٹی پولیس سٹیشن کے ایڈیشنل ایس ایچ او راجہ عتیق کیانی نے بتایا کہ، ‘نامزد ملزمان کے خلاف مقدمہ درج  ہو گیا۔  نامزد ملزمان مرنے والے شخص کے لواحقین تھے۔ پولیس نے انسانی ہمدردی کے تحت انہیں تدفین کی مہلت دی۔ تاہم  جب رات کو ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے تو وہ موجود نہیں تھے صبح تک انہوں نے عدالت سے عبوری ضمانتیں کروا لی تھیں۔’

ڈاکٹر جمیل کا دعویٰ ہے کہ ان پر تشدد کرنے والے لوگوں کا تعلق ایک وکیل کے خاندان سے اور ان کی برادری بھی سیاسی لحاظ سے مضبوط اور موثر ہے۔

‘اگر میں قبلائی اعتبار سے تعداد میں کسی بڑے قبیلے سے ہوتا تو مجھے انصاف مل چکا ہوتا مجھ پر تشدد کے نامزد ملزمان میں ایک پیشے کے اعتبار سے وکیل  اعظم حیدر بھی تھا اس لیے مجھے انصاف نہیں مل سکا اور میں عدالت کے لیے کونسل بھی مقرر نہ کر سکا، کیوں کہ یہاں وکیل اپنے کسی ساتھی وکیل کے خلاف مقدمہ کرنے یا اس کی پیروی کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔’

اس سوال  پر کہ  کسی کسی وکیل کے خلاف بارایسوسی ایشن کا  کوئی  دوسرا ممبروکیل کیس کیوں فائل نہیں کرتا یا اس کی پیروی نہیں کرتا؟  ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن باغ کے صدر خالد گردیزی نے واضح کیا کہ بار ایسو ایشن کی سطح پر کوئی ایسا فیصلہ موجود نہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ، ‘اعظم حیدر پر الزام بے بنیاد ہے اس ۔’لیے اخلاقی طور پر وکلاء مقدمہ دائر نہیں کر رہے۔ ہم قانون و انصاف کی راہ میں کہیں بھی رکاوٹ نہیں ہیں

 تاہم خالد گردیزی کے دعوے کے برعکس، آزاد کشمیر کے بیشتر اضلاع میں وکلاء ایک باہمی فیصلے کے تحت کسی ایسے مقدمے میں عدالت میں پیش نہیں ہوتے  جس مخالف سمت میں پٹیشنر یا ملزم کوئی دوسرا وکیل ہو۔ کئی بار ایسوسی ایشنز نے اس پر باقاعدہ قراردادیں منظور کر رکھی ہیں اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن باغ  میں بھی پچھلے کئی سالوں سے کسی وکیل نے ایسے کسی مقدمے کی پیروی نہیں کی جس میں ملزم کا مخلاف پٹیشنر کوئی دوسرا وکیل ہو۔

رواں سال کے آغاز میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میر پور نے اپنے ان چار وکلاء کی رکنیت معطل کر دی تھی جنہوں نے توہین مذہب کے ایک ایسے مقدمے میں ملزم کی وکالت نامے جمع کروائے تھے جس میں پٹیشنر ایک وکیل تھا۔

اس واقعے کے بارے میں نامزد ملزم سردار اعظم ایڈوکیٹ کا دعویٰ ہے کہ ان کے بہنوئی کی موت ڈاکٹروں اور طبی عملے کی ‘غفلت’ کی وجہ سے ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ، ‘ کورونا آئیسولیشن وارڈ میں چوبیس گھنٹوں میں صرف پندرہ سے بیس منٹ کے لیے ڈاکٹر آتے تھے، جس دن ہمارے مریض کی موت ہوئی کوئی بھی ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں تھا۔’

ان کا دعویٰ کے کہ ہسپتال میں  کووڈ کے مریضوں کو ادویات بھی میسر نہیں۔ ‘ہمارے مریض کو ریفر کرنے کے دوران آکسیجن میسر نہ ہونےاورماہرطبی عملہ نہ ‘ہونے کی وجہ سے موت ہوئی۔

‘ دوسرے مریضوں کو بھی مشکلات  تھیں اور ان کے لواحقین بھی برہم تھے مگر ڈاکٹر غائب تھے۔ تشدد کا جو واقع رونما ہوا جس میں آئسولیشن میں موجود تمام مریضوں کے لواحقین شامل تھے مگر الزم مجھ پر لگایا گیا۔’

‘ہم نے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی غفلت کے خلاف کاروائی کی درخواست دے رکھی ہے مگر ڈاکٹروں اور طبی عملے کی مضبوط تنظیمیں اس واقعے کی چھان بین ہونے دے رہی ہیں اور نہ نامزد ملزمان کے خلاف کاروائی ہونے دے رہی ہیں، الٹا ہمارے خلاف مقدمہ درج کر رہا ہے۔’

پولیس کے بقول مرنے والے لواحقین کی درخواست تحققیات کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو تحریک کی گئی ہے کہ بذریعہ کمیٹی تعین کیا جائے کہ کیا واقعی مریض کی موت ڈاکٹر یا طبی عملے کی غفلت سے ہوئی؟ جب رپورٹ آئے گی تو کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔  پولیس کے بقول، ‘ملازمین کی تنظیموں کی دباؤ کے تاثر میں حقیقت نہیں۔’

آزاد کشمیر میں ڈاکٹروں کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم  کے سربراہ ڈاکٹر جاوید  کا کہنا ہے کہ، ‘کووڈ کے بعد آذاد کشمیر میں ڈاکٹرز یا عملے کے خلاف تشدد کے زیادہ واقعات دیکھنے میں آئے ہیں جسکی وجہ عوام میں زہنی تناؤ ہے جسکی وجہ سے طبی عملے کو زیادہ مشکلات ہیں’

وہ کہتے ہیں کہ، ‘انتظامیہ اور پولیس طبی عملے کے ساتھ تعاون نہیں کرتی۔ بڑے بڑے واقعات ہونے کے باوجود بھی ابھی تک پولیس کسی ملزم کو گرفتار نہیں کر سکی۔ دانستہ طور پر مقدمہ کمزور کر کہ ملزم کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔’

اس سوال پرکہ ہسپتالوں میں تشدد کو کیسے ختم یا کم کیا جا سکتا ہے، ڈاکٹر واجد کہتے ہیں: ‘ موثر قانون سازی اور اس پر عملدرآمد، بہتر تعلیم و تربیت اور بہترین رویے تشدد کو کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، تاہم اس کے لیے ایک طویل وقت درکار ہے۔’

اپنا تبصرہ بھیجیں