1965کی جنگ کی یادواشتیں: ‘بھینسوں کے پیشاب والا پانی پی کر جنگ لڑی’

80 سالہ راجہ نصیر خان کا تعلق وادی نیلم کے ایک قدیمی گائوں سالخلہ سے ہے 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران مجاھد فورس 642 رجمنٹ میں نائب صوبیدار کے عہدے پر تھے۔ وہ دوماہ تک کشمیر کے بارڈر پر رہے جنگ کے دوران 24 گھنٹے بھارتی فوج کے محاصرے میں رہنے کے بعد خوش قسمتی سے زندہ بچ گئے وہ کہتے ہیں کہ بھارتی فوج انتہائی بزدل ہے بےسروسامانی کے عالم میں بھی وہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکی ۔ 65 کی جنگ میں۔کشمیری قوم کے حوصلے جوان تھے جنہوں نے ہمت ۔بہادری اور جرات سے دشمن کا مقابلہ کیا۔

راجہ نصیر نے کشمیر لنک ڈیجیٹل کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ 1965 وادی نیلم کیرن سیکٹر (پھڑکیاں گلی) میں ہم ایک دن اور ایک رات محاصرے میں رہے کھانے کے لئے سامان اور پینے کے لئیے پانی نہیں تھا ہم نے گھاس کھایا اور اندھیرے میں گندا پانی پیا ۔یہ جذبہ تھا جس کی وجہ سے جنگ میں کامیابی ملی۔ پورے کشمیر میں جنگ تھی کوئی سیکٹر ایسا نہیں تھا جہاں لڑائی نہ ہوئی ہوپھڑکیاں گلی پر انڈیا کا بٹالین کیمپ تھا وہ سب ہم نے تباہ کیا ایک مشین گن آپریٹر کی وجہ سے ہمیں سخت مزاحمت کا سامنا رہا سارے مورچے ہم نے تباہ کئیے لیکن وہ ایک مورچہ تباہ نہیں ہوا۔ 1965 جیسی جنگ اب نہیں لڑی جا سکتی ہمارے پاس اسلحہ بہت کم تھا کھانے کے لئیے کھجوریں اور تھوڑا ساسامان تھا اللہ کی مدد سے ہمارے حوصلے بلند تھے جنگ کے دوران انڈین آرمی سے لڑائی کے بعد حاصل ہونے والا اسلحہ ہم نے ان پر استعمال کیا ۔

ہم سرینگر کے قریب پہنچ چکے تھے ہوائی اڈے پر حملہ کرنا تھا جس کے لئیے ہمارے جوان وہاں تیار بیٹھے تھے لیکن انڈیا کے لاہور پر حملہ کرنے کے بعد جوحالات پیدا ہوئے اس کے بعد جنگ بندی کر دی گئی اور جوانوں کو واپس آنا پڑا ۔

آرمی کے ساتھ ساتھ 1965 کی جنگ میں سول لوگوں میں جو جوش اور جذبہ تھا وہ شائد ہی دوبارہ پیدا ہو۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لاہور پر حملہ ہوا تو لوگ جا کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے تھے لوگوں کو بڑا جذبہ تھا ۔ میرا خیال ہے 65 جیسی اب نہیں لڑی جا سکتی۔ 65 کی جنگ میں لڑنے کا جو جذبہ تھا وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ ہم دومہینے کشمیر میں رہے ہیں۔ ہم نے گھاس کھائی ہے۔ میری زبان سوجھ گئی تھی، بات نہیں کر سکتا تھا۔ ہمیں پانی نہیں ملا ایک جگہ ہم نے پانی پیا وہاں بھینسیں بیٹھی تھی صبح پتہ چلا کہ اس میں۔بھینسوں کا پیشاب ہے سرخ پانی جو رات کو ہم پی گئے۔ یہ باتیں جذبے کی ہوتی ہیں یہ سختی سے نہیں کی جا سکتی کہ سختی سے کسی کو بھیج دیں جنگ لڑنے کے لئیے ۔ وہ نہیں لڑے گا۔ ہم دوماہ تک رہے ہیں بڑے فاقے دیکھے ہیں ۔گھاس کھایا ہے ۔1965 میں صرف فوج ہی میں نہیں سولین میں بھی جذبہ تھاگھر کے بچوں اور عورتوں میں بھی جذبہ تھا

ہر پلٹن کو اپنا ٹارگٹ تھا کہ تم نے فلاں فلاں کام کرنے ہیں بس وہ ٹارگٹ سے آگے نہیں بڑھ سکتے تھے ہمیں تھا پھڑکیاں گلی بٹالین ہیڈ کوارٹر اسے تباہ کرنا ہے کپواڑے کا پل بھی تباہ کرنا یمارے ذمہ تھا ۔ باقی ایک ایسی فورا بھی تھی جو ہوائی اڈے پر بیٹھی تھی اس انتظار میں کہ کب یہ منہاں روڈ پر قبضہ ہو گا ہم اڈا تباہ کر دیں گے بعد میں اعلان کر کے کشمیر فتح کر لیں گے باقی سیکٹروں پر لوگ اپنے اپنے سیکٹر پر تھے پورے کشمیر میں جنگ تھی کوئی سیکٹر خالی نہ تھا جہاں فائرنگ نہ تھی ۔ یہ نہیں معلوم کی کس کو کون سی جگہ ملی تھی اڑتالیس ہزار انسان تھا

جس گروپ میں میں۔تھا اسے کمپنی کہتے ہیں اس میں 125 انسان تھے کمپنی کمانڈر کے ساتھ جو اس کے ماتحت تھے یہ پوری بٹالین فوج تھی جو ایک میجر کی کمان میں جا رہے تھے اڑتالیس ہزار کے قریب کشمیری کشمیر میں داخل ہو گئے تھے جو بے سروسامان تھے ۔ اور کئی حیرت انگیز واقعات پیش آئے 65 کی جنگ میں ۔ 16 اے کے بٹالین کے ساتھ ہم منسلک تھے ۔

پھڑکیاں گلی پر ہم نے اٹیک کیا اس وقت رات تھی انڈیا نے ہم پر پہلا فائر کھولا ۔رات کو وہ فائر کرتے رہے ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا صبح جب کافی روشنی ہو گئی تو ہمارے کپتان عبدالرشید عباسی بعد میں وہ کرنل عبدالرشید عباسی ہو گئے تھے 65 میں وہ قید ہو گئے تھے کیپٹن عبدالرشید عباسی نے خود فائر کیا پھڑکیاں گلی پوری تباہ کر دی اس میں کوئی مورچہ کھڑا نہیں رہا ایک مشین گن کا مورچہ تھا وہ رہ گیا تھا ۔ جس طرف سے ہم فائر کرتے تھے اس طرف پتھر تھا وہ کاٹا نہ گیا تو بعد میں کپتان صاحب نے حکم دیا راکٹ لانچر والے کو کے جاکر اس طرف سے فائر کرو۔ عبداللہ نام تھا اس کا کہ جائو عبداللہ اس طرف سے فائر کروتاکہ اس طرف دیوار لگی ہوئی ہے یہ مورچہ فتح ہو جائے ۔وہ ابھی گیا ہی نہیں تھا ان کی طرف سے کوورنگ فائر آگیا اور ان کی نفری بھی ایڈوانس کرنا شروع کر دی انڈیا فوج بغیر کورنگ فائر کے مارچ نہیں کر سکتی بہت بزدل فوج
ہے پھر ہمیں وہاں سے بھاگنا پڑا اور بھاگ کر نکل آئے اور پھڑکیاں گلی کا وہ ایک مورچہ رہ گیا

جس وقت ہم نے پھڑکیاں گلی پر حملہ کیا تو اس وقت ہمارا ایک جوان وہاں شہید ہو گیا لعل حسین بٹالین حوالدار میجر تھا وہ ۔ایک آدمی زخمی ہو گیا نام اس کا یاد نہیں وہ سپاہی تھا ۔ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا جو تاریخی ہو ۔ البتہ یہ ہے کہ ایک دن اور ایک رات گھیرے میں رہا ہوں وہاں یہ بات ہوئی کہ میجر صاحب نے بھیجا کہ تم جا کر امبشت لگا دے پتھرے ۔پتھرا ایک جگہ ہے کیرن کے پیچھے۔ پھڑکیاں گلی کے سامنے نیچے دامن میں۔ میں نے وہاں امبشت لگائی ۔۔کہیں سکیورٹی لیک ہو گئی کہ وہاں امبشت لگی ہوئی ہے ۔انڈیا فورس نے ہمیں گھیرے میں ڈالنے کی کوشش کی ایک بوڑھا آدمی جو چوہدری تھا اس نے پوچھا تم ادہر کیا کر رہے ہو ۔ میں نے کہا کہ میں۔مجاہدوں کا سامان اٹھاکر لایا تو مجاھد چلے گئے ہیں۔اس نے کہا کہ پاکستان نے فوج کو مروادیا ۔تم مارے گئے ہو یہاں سے بہت فوج اوپر جارہی ہے تو میں نے تین آدمی بھیجے کہ جا کر دیکھ کر آئو کہ واقعی بوڑھا سچ کہہ رہا ہے تو وہ دیکھ کر آئے کہ واقعی فوج اوپر جا رہی ہے ۔ایک رات اور ایک دن میں گھیرے میں رہا ہوں ۔ایک رات اور ایک دن زبردست شیلنگ ہوئی ہم پر پتھرے ۔پتھرے کے اوپر جنگل تھا ۔ہم نے بھی جنگل کو آگ لگا دی تھی انہیں بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ کہاں سے کیا حرکت ہو رہی ہے۔رات کو بارش بھی شروع ہو گئی تھی اس کے بعد ہم آئے کہ اس گن کے ساتھ لڑ کر رستہ لیں گیا لیکن وہ بیچارہ پہلے بھاگ گیا تھا ہمیں راستہ مل گیا اور ہم آگئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں