پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے انتخابات میں ووٹنگ مشین کے استعمال سے متعلق پیش کردہ الیکشن ترمیمی بل 2021 اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود منظور ہو گیا ہے۔ الیکشن ترمیمی بل 2021 پر رائے شماری سے پہلے حزب اختلاف نے اس بل کو متنازع قرار دے دیا تھا اور عندیہ دیا تھا کہ وہ اس کے خلاف عدالت میں جائیں گے۔ تاہم بدھ کو ہونے والے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بل پر پہلی بار ووٹنگ کے بعد سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اعلان کیا کہ تحریک کے حق میں 221 اور مخالفت میں 203 ووٹ آئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے انڈیپنڈنٹ اردو کے مطابق پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بل کی تحریک وزیر اعظم کے مشیر بابر اعوان نے پیش کی تھی۔ اس کے علاوہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین، اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق، سٹیٹ بینک خودمختاری بل، خواتین و بچوں سے زنا بالجبر کیس میں جرم کی فوری سزا کا بل اور کلبھوشن یادیو کیس سے متعلق عالمی عدالت انصاف نظر ثانی و غور فکر بل 2021 کثرت رائے سے منظور کر لیے گئے ہیں۔ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ حکومت کی قانون سازی کے خلاف عدالت جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اپنی تقریر میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ حکومت اگر زبردستی قانون سازی کرے گی تو وہ اس کے خلاف عدالت جائیں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ حکومت کو آخر ان قوانین کو منظور کروانے کی جلدی کیوں ہے۔ اپنی تقریر میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’سپیکر صاحب اپنی کرسی کی عزت کو برقرار رکھیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت عوام اور اپوزیشن کو دھوکہ دے رہی ہے۔ انہوں نے سپیکر سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جناب سپیکر آپ کو اس جرم میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ ہم آپ کے عہدے کی عزت کرتے ہیں۔‘
بلاول بھٹو سے قبل اجلاس سے اپنے خطاب میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے سپیکر کو مخاطب کر کے کہ کہا کہ اگر آج یہ ’کالا قانون‘ منظور کیا گیا تو اس کی ذمہ داری آپ پر ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے ذریعے اپنی حکومت کو طول دینا چاہتی ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یہ بلز غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ شہباز شریف کے خطاب کے بعد حکومت کی جانب سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’1970 کے بعد سے ملک میں کوئی ایسا انتخاب نہیں ہوا جس پر سوال نہ اٹھایا گیا ہو۔ ہم تاریخ سے کب سبق سیکھیں گے۔ اب وقت آگا ہے کہ ہم اپنی سمت درست کر لیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کوئی کالا قانون نہیں مسلط کرنا چاہتی بلکہ ہم ماضی کی کالک کو دھونا چاہتے ہیں۔ ہم نے بار بار درخواست کی ہے کہ اپوزیشن ووٹنگ مشینز کا جائزہ لے لے۔‘
وزیر خارجہ کے مطابق یہ پارلیمنٹ شفاف انتخابی اصلاحات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے حکومت نے اپنی ارکان کی تشنگی کو دور کیا ہے اور ہمارے اتحادی ہمارے ساتھ ہیں۔ وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ ’حکومت نے یہ اجلاس عجلت میں بلایا ہے اگر ایسا کیا جاتا تو ہمارے پاس عددی اکثریت نہ ہوتی۔‘ اجلاس کے حوالے سے حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مطمئن ہے کہ اسے انتخابی اصلاحات کی ترمیم کے لیے مطلوبہ تعداد کے اراکین کی حمایت حاصل ہے جبکہ حزب اختلاف بھی کڑے مقابلے کی بات کر رہی ہے۔
قبل ازیں وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اتحادی متحد ہیں اور ان کے ساتھ ہیں۔ ’حکومتی اتحادی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہمارے حق میں ووٹ دیں گے جب کہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کا دروازہ آج بھی کھلا رکھیں گے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ’قانون عوامی مفاد کے لیے ہیں کسی کو فائدہ دینے کے لیے نہیں، اپوزیشن کو عقل مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘
مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان کے مطابق پارلیمنٹ کے مشترکا اجلاس میں انتخابی اصلاحات سے متعلق بل، آئی ووٹنگ ،الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) سے متعلق بل ،ایف اے ٹی ایف سے متعلق بل ، اینٹی ریپ بل، اسلام آباد میں قانون کرایہ داری سے متعلق بل، فیملی لا سے متعلق دو بل بھی پیش کیے جائیں گے۔ بابر اعوان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کی تعمیل کےتحت کلبھوشن یادیو کے حوالے سے بل بھی پیش کریں گے۔
ایجنڈے کے مطابق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بلز، ای وی ایم اور سمندر پار پاکستانیوں کےانٹرنیٹ ووٹنگ سے متعلق بل بھی ایجنڈے میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایجنڈے میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل میں ووٹرز فہرستوں کا اختیار نادرا کو دینے کی ترمیم بھی شامل ہے۔ ایجنڈے کے مطابق انسداد جنسی زیادتی تحقیقات اور ٹرائل کا بل بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔ یہ بل جنسی زیادتی کیسزمیں خصوصی تحقیقاتی ٹیمز اور عدالتوں کی تشکیل سےمتعلق ہے۔
اس بل کے تحت خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کی روک تھام سے متعلق کریمنل لا ترمیمی بل اور بچوں کی جسمانی سزا کے تدارک کا بل پیش کیا جائےگا۔ جب کہ مردم شماری سے متعلق تحفظات پر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کا ریفرنس بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ’چھوٹی پارٹیوں پرپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جانےکے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔‘ ان کے مطابق ’اگر ہاتھ مروڑ کر قانون بنائے جائیں گے تو ایسے قوانین کی کوئی وقعت نہیں ہوگی۔‘
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ کا مشترکہ بدھ دن 12 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کیا تھا۔ ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی طلبی کا نوٹیفکیشن آئین کے آرٹیکل 54 کی شق ایک کے تحت جاری کیا۔ یاد رہے حکومت اتحادی جماعتوں کی ناراضی کی وجہ سے مشترکہ اجلاس گذشتہ ہفتے ملتوی کر چکی ہے۔