سکولوں پر قبضہ

وادی نیلم: نو تعمیرشدہ سکولوں پر قبضہ کر کے تالے لگا دیے گئے

وادی نیلم کے علاقے کنڈل شاہی کے نواحی گاوں گہلاں اور گجان میں دو علیحدہ علیحدہ سرکاری سکولوں پر قبضہ کر کے نو تعمیر شدہ سکولوں کو تالے لگا دیے ہیں۔ جس کے بعد دونوں سکولوں کے سینکڑوں طلباء وہ طالبات شدید سردی میں کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جبکہ محکمہ تعلیم گذشتہ دو ہفتے سے مقامی لوگوں کے ساتھ تنازعے کا حل نکالنے میں ناکام ہے۔

وادی نیلم کے علاقے گہلاں کے سرکاری سکول کے طلبا و طالبات ہیں پچھلے کئی روز سے شدید سردی میں سڑک پر بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایک مقامی شخص نے سرکاری سکول کی عمارت کو تالے لگا کر اس پر قبضہ کر لیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق چند سال قبل تعمیر ہونےوالی اس عمارت کے لیے زمین اسی شخص نے عطیہ کی تھی۔

تاہم غلام نبی قریشی نامی اس شخص کا دعویٰ ہے اس کا دعویٰ ہے کے زمین کے بدلے دو نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا جو اب پورا نہیں کیا جا رہا۔ گہلاں کے قریب گجان نامی گاوں میں بھی سرکاری پرائمری سکول کی عمارت پر ایک مقامی شخص کا قبضہ ہے۔ سید عالم نامی اس شخص کے مطالبات بھی وہی ہے جو گہلاں میں سکول پر قبضہ کرنے والے شخص کے ہیں۔

کشمیر لنک سے بات کرتے ہوئے غلام نبی قریشی نے بتایا: ‘ہمارے کچھ مطالبات ہیں جو ریپڈ نامی ادارے نے ہمیں لکھ کر دیے ہیں اور وزیر تعلیم نے بھی ہمیں مطمیئن کیا تھا کہ یہ مطالبات مانے جائیں گے۔ مگر جب عمارت بن گئی تو اس کے بعد وہ آج تک ملے ہی نہیں۔’

سکولوں پر قبضہ

ان کے بقول دس ماہ سے چوکیدار اور کیئر ٹیکر کی کوئی تنخواہ نہیں دی جا رہی۔ دو سال سے ان مطالبات پر غور نہیں ہو رہا جو تحریری معائدے کی صورت میں موجود ہیں۔ حکومت نے زمین لیتے وقت معائدہ کیا تھا کہ آپ کے دو لوگوں کو نوکری دی جائے گی۔ ایک چوکیدار اور ایک چپراسی بھرتی کرنا تھے، مگر آج کہتے ہیں کہ ہمارے منصوبے میں شامل ہی نہیں۔

غلام نبی قریشی کا کہنا تھا کہ، ‘ہمارا مطالبہ ہے کہ دس ماہ کی تنخواہ دیں۔ جب تک تنخواہ ادا نہیں کرتے، ہم تالے نہیں کھولیں گے۔ بچے چاہے کھیت میں پڑھیں یا گھر میں۔’

واضح رہے کہ اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے مالی تعاون سے تعمیر ہونے والے ان ماڈل سکولوں کا انتظام ریپڈ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی ذمہ داری ہے جو یہاں اساتذہ اور انتظامی عملے کی تعیناتی اور تنخواہوں کی ادائیگی کی ذمہ دار ہے۔

سکولوں پر قبضہ

اپنا تبصرہ بھیجیں