وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے جی الیون کے ایک غیر فعال میٹرو اسٹیشن سے ملی بچی کی لاش کا معمہ حل ہو گیا ہے اور بارہ سالہ بچی کا قاتل اس کا باپ نکلا۔
دو ہفتے قبل پولیس کو ایک غیر فعال میٹرواسٹیشن کے بیت الخلا سے گیارہ سالہ بچی کی لاش ملی۔ مقتولہ بچی کی شناخت صالحہ فاطمہ دخترمحمد واجد کے طور پر ہوئی۔ پولیس کے مطابق مقتولہ بچی کے خاندان کا تعلق آزاد کشمیر کےعلاقے جہلم ویلی سے ہے اور کافی عرصہ سے اسلام آباد کے نواحی علاقے ترلائی میں مقیم ہے۔
مبینہ ملزم واجد نے آٹھ سال قبل اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور گیارہ سالہ بیٹی ملزم کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ تاہم ملزم کا اپنے بھائیوں یا خاندان کے دیگر لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ خاندا ن کے بعض لوگوں کے مطابق ملزم نشے کا عادی اور جرائم پیشہ شخص ہے۔
واجد کے بڑے بھائی محمد ریاض کے بقول ’محمد واجد ذرا مختلف طبیعت کا انسان ہے اور طلاق کے بعد اس نے ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھا تھا۔‘
ابتدائی اطلاعات میں پولیس نے میڈیا کو بتایا تھا کہ لڑکی کو قتل کرنے سے قبل ممکنہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے، تاہم ابھی تک اس کی باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی۔
کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر انسپکٹر شاہد شاہ شنواری نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ بچی کے جسم سے نمونے حاصل کرکے ڈی این اے اور دوسرے ٹیسٹوں کے لیے بھیج دیے گئے ہیں۔ تفتیشی افسر کا اصرار تھا کہ ’ٹیسٹس کے نتائج آنے پر ہی طریقہ قتل اور جنسی زیادتی سے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکے گی۔‘
بچی کی لاش ملنے کے فوراً بعد بچی کا والد پر اسرار طور پر لاپتہ ہو گیا تھا۔ اس کے قریبی رشتہ داروں کو شبہ تھا کہ اسے پولیس نے حراست میں لے لیا ہے تاہم پولیس اس سے مسلسل انکار کرتی رہی۔ اس کی اچانک گمشدگی نے کئی شکوک و شبہات اور سوالات کو جنم دیا۔
امکان یہی ہے کہ پولیس نے ملزم کو مشکوک مانتے ہوئے حراست میں رکھ کر تفتیش کی تاہم اس کی گرفتاری کو خفیہ رکھا گیا۔
تفتیشی افسرانسپکٹر شاہد شنواری نے غیر ملکی میڈیا کے نامہ نگار سے بات کرتے واضح طور پر کہا تھا کہ مختلف لوگوں سے پوچھ گچھ جاری ہے تاہم کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
پولیس کے علاوہ ملزم کے خاندان کے لوگ بھی اس کے بارے مسلسل لا علمی کا اظہار کر رہے تھے۔ تاہم اب پولیس نے تصدیق کی ہے کہ ملزم ان کی تحویل میں ہے۔
نجی نجی ٹیلی ویژن نے اپنی رپورٹ میں پولیس کے اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ شک کی بنیاد پر مقتولہ بچی کے باپ کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کی تو اس نے نہ صرف اعتراف جرم کیا بلکہ جائے واردات کی نشاندہی بھی کر دی۔
ابھی تک وہ وجوہات سامنے نہیں آئیں جن کی بنا پر سفاک باپ نے اپنی بیٹی کو قتل کیا۔ پولیس کے مطابق ملزم سے مزید شواہد حاصل کرنے کے لیے تفتیش جاری ہے۔ اس سوال پر کہ آیا قتل سے قبل بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، پولیس کا کہنا ہے کہ جب تک ڈی این اے اور دوسرے ٹیسٹوں کی رپورٹس نہیں آ جاتیں، وہ جنسی زیادتی کی تصدیق یا تردید نہیں کر سکتے۔
ترلائی میں رہنے والی گیارہ سالہ بچی کی لاش جی الیون کیے میٹرو سٹیشن تک کیسے تک کیسے پہنچی؟ یہ سوال ابھی ایک معمہ ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے دو روز قبل تک پولیس کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ بچی کو کس نے، کیوں اور کیسے قتل کیا؟
اس نوعیت کے کئی سوالات گذشتہ دو ہفتے سے اٹھ رہے تھے تاہم، پولیس کے پاس فوری طور پران سوالوں کو کوئی جواب نہیں تھا۔ تاہم اب جب پولیس نے تصدیق کی ہے کہ بچی کے باپ نےہی اسے قتل کیا ہے تو یہ توقع کہ جا رہی ہے کہ چند روز میں باقی سوالوں کے جواب بھی بتدریج سامنے آ جائیں گے۔
جلال الدین مغل گذشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ فری لانس ملٹی میڈیا رپورٹر کے طور پر انہوں نے آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے متعلق مختلف موضوعات پر رپورٹنگ کی ہے۔ ان کا کام نیو یارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ اردو، وائس آف امریکہ، روزنامہ ڈان اور کئی دیگر قومی اور عالمی اخبارات اور جرائد میں شائع ہو چکا ہے۔