آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں تحریک انصاف نے مبینہ طور پر الیکشن میں جعل سازی کرنے والے اپنے پانچ اراکین اسمبلی کو مستعفیٰ ہونے کا پیغام دے دیا۔ پانچوں اراکین مہاجرین جموں وکشمیر کی مخصوص نشستوں سے منتخب ہوئے ہیں اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کاغذات نامزدگی میں جعل سازی کی تھی اور اپنے حلقوں میں جعلی ووٹ بھی درج کروائے تھے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نے پانچوں اراکین کو واضح کر دیا ہے کہ عدالتوں سے ان کی فراغت کی صورت میں جماعتی ساکھ متاثر ہو گی لہذا بہتر ہے کہ وہ از خود استعفیٰ دے دیں۔ ذرائع کے مطابق پانچوں اراکین نے اپنی نشستیں بچانے کے لیے مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے ساتھ بیک چینل رابطے شروع کر دیے۔
سابق وزیر سیاحت اور حلقہ ایل اے 34 جموں ایک سے امیدوار اسمبلی طاہر کھوکھر نے گذشہ دنوں میڈیا پر آ کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے پانچ اراکین کے کشمیری ڈومیسائل جعلی ہیں اور وہ اس کے ثبوت جلد منظر عام پر لائیں گے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ طاہر کھوکھر کے اکھٹے کیے گئے ثبوتوں کی بھنک کی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو بھی پڑ چکی ہے اور بعض خفیہ اداروں کی جانب سے طاہر کھوکھر کے دعووں کی تصدیق ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے ان اراکین اسمبلی کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
ان اراکین اسمبلی کی جانب سسے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے کاغذات میں جعل سازی اور ان کے حلقوں میں میں جعلی ووٹوں کے اندراج کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آنے کے بعد پانچوں اراکین کی نشستیں خطرے میں ہیں۔ پانچوں اراکین نے اپنی نسشتیں بچانے کے لیے مبینہ طور پر پیپلز پارٹی سے مدد مانگ لی ہے کیونکہ یہ نشستیں خالی ہونے کی صورت میں مسلم لیگ (ن) کے ان نشستوں پر کامیابی کے امکان زیادہ ہیں۔
اس سلسلے میں پاکستان میں پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات کے بعد ان اراکین اسمبلی میں سے بعض نے آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقات کر کے ان سے مدد طلب کی ہے۔
اگرچہ پیپلز پارٹی نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا تاہم پیپلز پارٹی کی جانب سے کسی بھی یقین دہانی کی صورت میں یہ اراکین ایوان کے اندر پیپلر پارٹی کی حمائت کرنے پر تیار ہیں۔
واضح رہے کہ ان پانچ اراکین اسمبلی میں سے ایک کے خلاف طاہر کھوکھر نے پہلے ہی الیکشن ٹربیونل میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے جس کی سماعت بھی جاری ہے۔
جلال الدین مغل گذشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ فری لانس ملٹی میڈیا رپورٹر کے طور پر انہوں نے آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے متعلق مختلف موضوعات پر رپورٹنگ کی ہے۔ ان کا کام نیو یارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ اردو، وائس آف امریکہ، روزنامہ ڈان اور کئی دیگر قومی اور عالمی اخبارات اور جرائد میں شائع ہو چکا ہے۔