سپریم کورٹ آف آزادکشمیر کے حکم کے تحت اگست 2022سے پہلے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد،حکومت آزادکشمیر نے فنڈز جاری کیے اور نہ ہی لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کی۔
حکومت اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے آگئے۔ 98کروڑ کے درکار فنڈز کے لیے ابھی تک صرف رضا مندی دی گئی ،الیکشن کمیشن کو ایک روپیہ تک جاری نہیں ہوا بلکہ بلدیاتی الیکشن کے فنڈز کا اجراء عام الیکشن کے لیے فراہم کیے گئے فنڈز کے حساب کی فراہمی سے مشروط کردیا گیا۔
لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم کے لیے سیکرٹری لاء کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی کے اوپر ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنرل کی سربراہی میں اور کمیٹی بنادی گئی جن کی رپورٹیں تاحال زیر کاری ہیں۔ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترمیم نہیں ہوئی۔ ابھی تک یہ بھی طے نہیں ہوا کہ بلدیاتی الیکشن کس نظام کے تحت ہوں گے۔
حلقہ بندیوں کے لیے حکومت نے خود معیار طے کر کے سپریم کورٹ میں نوٹیفکیشن پیش کردیا جسے سپریم کورٹ نے تسلیم کیا۔ انتخابی فہرستیں نادرا کے ساتھ مل کر اپ ڈیٹ ہوں گی۔ نادارا کا ڈیٹا الیکشن کمیشن کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے باضابطہ معاہدہ درکار ہے جس کے لیے بات چیت ہورہی ہے۔
الیکشن کمیشن کے پاس سٹاف کی شدید کمی ہے۔ بلدیاتی الیکشن پہلے حکومت کرواتی تھی جس کے لیے الگ سے الیکشن کمشنر بلدیات ہوتا تھا۔ تیرہویں ترمیم کے بعد اب آزادکشمیر میں الیکشن کمیشن قائم ہوا ہے اور بلدیاتی الیکشن بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہیں۔
وہی الیکشن ایکٹ پاکستان میں بھی لایا گیا ہے جو پاکستان میں ہے مگر پاکستان میں چیف الیکشن کمشنر کو جج سپریم کورٹ کی مراعات حاصل ہیں اور ممبران کو جج ہائی کورٹ کی مراعات دی گئی ہے جبکہ آزادکشمیر میں ایسا نہیں ہوا۔
چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر)عبدالرشید سلہریا،سینئر ممبر الیکشن کمیشن راجہ فاروق نیاز اور ممبر الیکشن کمیشن فرحت علی میر نے آزادجموں وکشمیر الیکشن کمیشن میں سینئر صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی بات چیت کے دوران انکشاف کیا ہے کہ آزادکشمیر کے بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کا اعلان وزیراعظم کی جانب سے کیا جارہا ہے جبکہ یہ اختیار الیکشن کمیشن کا ہے۔
آزادکشمیر میں بلدیاتی انتخاب کے لیے سابق حکومت نے 2016ء میں چار کروڑ روپے فراہم کیے تھے اور 2017ء میں بلدیاتی انتخاب کے لیے حلقہ بندیاں کی گئیں جنہیں عدالت العالیہ نے کالعدم قراردیا۔ حکومت آزادکشمیر عدالت العالیہ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گئی جہاں حکومت نے ایک نوٹیفکیشن پیش کیا اور بلدیاتی الیکشن کے لیے معیار طے کیا جسے سپریم کورٹ نے تسلیم کرتے ہوئے 45دن کے اندر حلقہ بندیاں اور اگست 2022ء سے پہلے بلدیاتی انتخاب کے انعقا دکا حکم جاری کیا۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق فوری طورپر اپنا کام شروع کردیا اور حلقہ بندیوں کے لیے حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق جسے سپریم کورٹ کا تحفظ حاصل ہے اپنا کام آگے بڑھایا۔ بلدیاتی انتخاب کے لیے مجوعی طورپر 98کروڑ روپے کی رقم درکار ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک اپنے پا س محفوظ چار کروڑ روپے جو سابق حکومت نے 2017ء میں بلدیاتی انتخاب کے لیے دیے تھے استعمال میں لائے ہیں حلقہ بندیوں کا مرحلہ مکمل ہوا ہے جس کے خلاف دوسرے مرحلے میں ان حلقہ بندیوں کے خلاف مجاز اتھارٹی کے پاس اپیل زیر سماعت ہے۔