آزاد کشمیر کا سب سے بڑا ہسپتال ماچس فیکٹری کی متروکہ عمارت میں قائم، ہسپتال میں سہولیات کا شدید فقدان جدیدمشنیری، سٹی سکین اور ایم آر آئی تک کی سہولت موجود نہیں ہسپتال انتظامیہ حکومتی بے حسی کے باعث بے بس ہو گئی
آر ٹی آئی کے زریعے ملنے والی معلومات کے مطابق 2020 کے دوران ایمرجنسی میں 987 مریضوں کو لایا گیا جن میں سے سہولیات نہ ہونے کے باعث 200 مریضوں کو ریفر کرد یا گیا جبکہ 142 مریض بروقت علاج نہ ہونے کے باعث دم توڑ گے۔
عباس انسٹیٹیوٹ میڈیکل سائنسز سے ملنے والی معلومات کے مطابق ہسپتال کے لیے 317کنال کا رقبہ مختص کیا گیا تھا یہ ہسپتال 1992 میں بنایا گیا اس وقت اس جگہ یہ ہسپتال بنانے کا مقصد یہ تھا کہ پیمز ہسپتال کی طرز پہ اس کو بنا یا جا سکے گا اور ایک مکمل ہسپتال ہو گا مگر حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے 2015 میں 141 کنال زمین میڈیکل کالج کو دے دی گئی جبکہ کچھ رقبہ 2018 میں کینسر ہسپتال کو دے دیا گیا۔ جس کے بعد اب صرف ایک سو 102 کنال رقبہ رہ گیا ہے۔
عباس انسٹیٹیوٹ میڈیکل سائنسز کے ایک ذمہ دار آفیسر نے بتایا کہ جس عمارت میں ہسپتال قائم ہے یہ ہسپتال کے لیے بنی ہی نہیں یہ عمارت انتہائی پرانی اور بوسیدہ ہے اور اب قابل استعمال نہیں رہی متعقلہ آفیسر نے بتایا کہ ہمیں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سٹاف کی کمی ، مکمل مشینری کا نہ ہونے سمیت دیگر مسائل شامل ہیں اس وقت امبور ہسپتال میں 399 ڈاکڑز ہیں جہاں آزاد کشمیر بھر سے مریض آتے ہیں یہاں سٹاف کی شدید کمی ہے دوسری جانب ہسپتال میں صرف تین سو بیڈ ہیں جہاں صرف تین سو مریضوں کا داخلہ ممکن ہے جب مریض تین سو سے زائد ہو جاتے ہیں تو ایک بیڈ پہ دو دو تین تین مریض ہوتے ہیں یہ مسلہ مختلف فورمز پر اٹھا یا ہے مگر آج تک اس پر کوئی عمل نہیں ہو سکا اسکے علاوہ ہسپتال میں موجود ڈاکٹرز سمیت تمام عملے کے لیے رہائش کا کوئی انتظام نہیں صرف نرسنگ سٹاف کا ایک ہوسٹل ہے جس میں ایک وقت میں 18 نرسیز رہائش رکھ سکتی ہیں اس آفیسر کا مزید کہنا تھا کہ عوام چاہتی ہے کہ کے ڈاکٹز 24 گھنٹے موجود ہوں مگر ہمارے لیے ایسا ممکن نہیں ڈاکٹرز کو آن کال بلایا جاتا ہے اور اس کے لیے بھی صرف ایک گاڑی ہے ہسپتال کی باونڈری وال تک موجود نہیں یہی وجہ ہے کہ جانور بھی با آسانی کسی بھی وقت ہسپتال کے اندار داخل ہو جا تے ہیں اسی طرح بجلی کا نظام بھی انتہائی ناقص ہے صرف ایک گریڈ اسٹیشن سے بجلی کی فراہمی ہو رہی ہے اور 9 9 ,گھنٹے بجلی کی سپلائی معطل رہتی یے بجلی کی ترسیل کے لیے ہمیں ایک وقت میں چار جنریٹر چلانے پڑتے ہیں ہمیں ایک بڑا جنرئیٹر چاہیے جس سے پورے ہسپتال کو بروقت بجلی مل سکے ہماری کوشش ہے کہ دو لائنز سے بجلی کی فراہمی ہو مگر آج تک یہ ممکن نہیں ہو سکا جب بجلی ٹریپ کرتی ہے تو ہماری کروڑوں کی مشینری جل جاتی ہے اس حوالے سے متعدد بار متعلقہ ادارے کو بتایا گیا ہے۔
مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔ ہسپتال میں سیکورٹی اور صفائی ستھرائی کے لیے بھی عملہ ناکافی ہے سٹی سکین اور ایم آر آئی کی سہولت ہسپتال میں موجو د ہی نہیں جس کے باعث مریضوں کو پرائیوٹ لائبڑیز میں جانا پڑتا ہے آکسیجن کے لیے ہمارے پاس بجٹ صرف 50 لاکھ تھا جبکہ آکسیجن consumption دو کروڑ 63,لاکھ تک ہوئی ہے۔
ایمز ہسپتال سے ملنے والی معلومات کے مطابق 2018 میں 247816 مریض او پی ڈی میں چیک اپ کے لیے آئے 311596 مریضوں کے ٹیسٹ ہوئے 17196 مریض ہسپتال داخل ہوئے جبکہ 2966میجر اپریشن478,معمولی اپریشن ہوئے جبکہ 101248 میریضوں کو ایمرجنسی میں لایا گیا اسطرح 2019 میں 288739 مریضوں کا اوپی ڈی میں چیک اپ ہوا جبکہ 2020 میں 95837,مریضوں کواوپی ڈی میں چیک اپ کی سہولت دی گئی 2020 کے دوران کوڈ کی وجہ سے صرف ایمرجنسی کیسز کو دیکھا گیا یکم جنوری 2021 سے دسمبر 2021 تک صرف اوپی ڈی میں 182165مریضوں کا چیک اپ کیا گیا جبکہ 2021 میں دوران علاج 245 افراد جان کی بازی ہار گے۔
آزاد کشمیر کے سب سے بڑے ہسپتال میں صحت کی سہولیات میسر نہ ہونے کے حوالے سے وزیر صحت سے بات کرنے کی کوشش کہ تو انہوں نے اپنا موقف دینے سے معذرت کر لی۔
جبکہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سردار آفتاب نے اپنا مواقف دیتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر کے عوام کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنا موجودہ حکومت کی اولین ترجیجی ہے یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر میں تین بڑے ہسپتال جن میں کارڈیک ہسپتال کنسر ہسپتال اور 200بیڈ پر مشتمل ٹراما سنڑ بنائے جائے رہے ہیں دارالحکومت مظفرآباد کے ہسپتالوں میں سہولیات نہ موجود ہونے سے متعلقہ سوال پر ڈی جی ہیلتھ نے بتایا کہ وینٹی لیٹر ایمبولینسکے لیے پی سی وان مکمل ہوچکا ہے جس کے تحت آزاد کشمیر کے ہر اضلاح میں ایک وینٹی لیٹر ایمبولینسدی جائے گی جبکہ مظفرآباد کے بڑے ہسپتالوں میں ایم آر آئی اور سٹی سکین کی فراہمی بھی یقینی بنائی جائے گی اس کے حوالے سے پراجیکٹ Approved ہو چکے ہے جبکہ سٹاف کی کمی کے حوالے سے بھی چیزیں پراسیس میں ہیں جس کے تحت سٹاف کی کمی کو جلد دور کر لیا جائے گا۔
اس حوالے سے ایمز ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ آزاد کشمیر کے کسی بھی ہسپتال میں جدید مشینری کی سہولت میسر نہیں جس کے باعث مجبوراً ہمیں مریضوں کو اسلام آباد اور کے پی میں ریفر کر نا پڑتا ہے بہت بار مریضوں کی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ سفر کر سکیں مگر سہولیات کے فقدان کے باعث ہمیں ایسا کرنا پڑتا ہےاس وقت مظفرآباد میں محکمہ صحت سمیت دوبڑے اسپتالوں میں وینٹی لیٹر ایمبولینس عام مریضوں کے لیے دستیاب نہیں ہے جسکی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر نے بتایا کہ صحت کا شعبہ کسی بھی دور حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کہ سب سے بڑے ہسپتال کی عمارت ہی موجود نہیں ہسپتالوں میں نہ تو عملا پورا ہے نہ جدید مشنری اور ایک ایک بیڈ پر تین تین مریضوں کو رکھنا پڑتا ہے جو کہ کسی بھی طرح بین الاقومی معیار کے مطابق نہیں ۔
محمکہ صحت عامہ آزاد کشمیر سے آر ٹی آئی کے زریعے ملنے والی مزید معلومات کے مطابق اس وقت آزاد کشمیر میں 8 ,ڈسڑکٹ ہائیڈ کواٹر ہسپتال 2 سی ایم پسپتال ہیں جبکہ 11 تحصیل ہسپتال ہیں 47 دیہی مراکز صحت 228 بنیادی مرکز صحت 81ڈسپینسریز ہیں.
302 اسپیلسٹ ڈاکٹرز 704 میڈیکل آفیسرز 140 گزٹیڈ آفیسرز 674 نرسنگ سٹاف 3035 پیرامیڈکل سٹاف موجود ہے جبکہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق آزد کشمیر کی آبادی 45 لاکھ ہے ڈسٹرکٹ مظفرآباد کی آبادی چھ لاکھ ہے اس طر ح 4268 افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر جبکہ 1525 افراد کے لیے صرف ایک بیڈ ہے۔
شہری احتشام عوان کہتے ہیں کہ ہسپتال کی پلٹ لٹس مشین بھی خراب ہے اس کے پارٹس یہاں نہیں ملتے پاکستان میں ٹھیک ہونے کے لیے بھیجی جاتی ہے دو دو ماہ مشین ہی خراب رہتی ہے جس کی وجہ سے کتنے ہی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
جبکہ کہ مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے نمائندے ثاقب کہتے ہیں سیاسی شخصیت الیکشن سے قبل وعدے کرتی ہیں کہ ہم عوام کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کریں گے مگر حکومت میں آتے ہی ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک بھی اچھا ہسپتال نہیں شہریوں کو ایک گولی تک فری نہیں دی جاتی۔شہریوں کو صحت کی معیاری سہولیات فراہم کرنا کسی بھی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر یہاں حکومتی ذمہ داران صرف اپنی مستی میں مست رہتے ہیں اور اگر اپنا علاج کرونا ہو یا تو پاکستان کے اچھے ہسپتالوں سے کرواتے ہیں یا پھر بیرون ممالک سے ان کو عوام کی کوئی پروا نہیں۔
اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے شوکت جاوید میر کا کہنا ہے حکومت نے محکمہ صحت عامہ کو عضوِ معطل بنا کر رکھا ہے. شہر کے دونوں بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے ہسپتال میں نہ مشنری ہے نہ ادویات اور نہ ہی ڈاکٹر موجود ہیں مریضوں کو اپنی جائدادیں فروخت کرنے کے علاوہ قرض لیکر علاج کروانا پڑتا ہے. پی. ٹی. آی کے اقتدار میں آنے کے بعد ڈاکٹر صاحبان کی اکثریت فون پر ادویات تجویز کرتے ہیں. بھاری فیسیں وصول کی جا رہی ہیں. صحت کارڈ عصر حاضر کا سب سے بڑا جھانسہ اور دھوکہ ہے. دونوں اداروں میں ادویات کی خریدوفروخت پر بھاری کمیشن کے چرچے زبان زدِ عام و خاص ہیں۔
فائزہ گیلانی کا تعلق مظفرآباد آزاد کشمیر سے ہے۔ وہ گذشتہ کئی سالوں سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں اور قومی نشریاتی و اشاعتی اداروں سے منسلک رہی ہیں۔ فری لانس صحافی کے طور پر ان کی تحقیقاتی رپورٹس قومی میگزینز میں شائع ہوتی ہیں۔