کارگل جنگ 99ء میں پاک فوج کی عسکری اور نفسیاتی برتری نے بھارت کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ وہ بری طرح اپنے زخم چاٹ رہا تھا۔ لائن آف کنٹرول پرپاک فوج کی طرف سے دیے گے کاری زخموں نے اسے بدحواس کر رکھا تھا۔ جنگ ختم ہوگئی لیکن اس کے خوفناک اثرات بھارت کو بے چین کئے ہوئے تھے۔
سال 99ء بدل چکا تھا اور 2000 شروع ہو چکا تھا۔ لائن آف کنٹرول پر بھارت نے دباو میں اضافہ کر دیا تھا۔ گولہ باری اور ٹارگٹڈ فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ پاک فوج محتاط جوابی کارروائی سے اسے حواس باختہ کئے ہوئے تھی۔ ویلج ڈیفینس کمیٹیاں کافی متحرک تھیں۔ رات کو اچانک ایل او سی پر جنگی ماحول پیدا ہو جاتا۔ لیکن شہری پاک فوج کیساتھ ڈٹے ہوئے تھےاور پہرہ دے رہے تھے۔
فروری 2000 کا تیسرا عشرہ چل رہا تھا۔ لیکن یہ عشرہ کچھ مختلف تھا۔ حیران کن طور پر کہیں بھی فائرنگ اور گولہ باری رپورٹ نہیں ہو رہی تھی۔ بالکل خاموشی تھی۔ ہم لوگ چونکہ فائرنگ اور گولہ باری کی آوازوں سے کافی مانوس تھے۔ اس لئے جب کبھی خاموشی چھا جاتی تو۔یہ ہمارے لئے خوف کا باعث ہوتی۔ رات کو ہم ایک دوسرے کو آوازیں دیتے۔ لائٹیں جلاتے اور جاگتے رہنے کی مشق سے دشمن کو اپنی تیاری اور رد عمل کا پیغام پہنچاتے۔
دشمن ویسے بھی چند سو گز کے فاصلے سے ہمیں بلندی پر بیٹھ کر مانیٹر کرتا تھا۔ اور اپنی چال میں تیزی سے مصروف عمل تھا۔ انٹیلیجنس ادارے وقتا فوقتا دشمن کے کسی بھی ایڈونچر کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرتے اور محتاط رہنے کے لئے بھی ہدایت کرتے رہتے۔ کیونکہ بے انتہا خاموشی پراسراریت کو جنم دے رہی تھی۔ لیکن فی لحال سب کچھ نارمل چل رہا تھا
آج 24 فروری کو لنجوٹ میرے گھر سے تقریبا سو گز اوپر بلندی “نکے” پر سردار عبدا لحمید کے گھر بزرگوں کی سالانہ ختم کی ایک تقریب تھی۔ دن کو سامنے ہی بیٹھ کر لوگ قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہے۔خوب چہل پہل رہی۔ شام کو وقت پر دعا ہوئی اور شرکاء کی بڑی تعداد دعا کے بعد کھانا کھانے کے بعد گھروں کو لوٹ گئی۔ میں ذاتی طور پر دن کو تو پروگرام میں شامل نہ ہوسکا۔ لیکن شام کو حاضری دی اور نیچے اپنے گھر لوٹ آیا۔
بزرگوں کا بڑا گھرتھا اور بڑی اور پرانی روایات بھی تھیں۔
سو کچھ بزرگ اور قریبی رشتہ دار ادھر ہی ٹھہر گئے کہ رات کو گپ شپ ہو گی۔ یعنی رات کو ادھر ٹھہرنے والے کل افراد کی تعداد 18 تھی۔جن میں ایک امام مسجد قاضی فیض محمد بھی شامل تھے باقی فیملی کے لوگ تھے۔ ہم بھی اپنے گھر میں دیر تک جاگنے کے بعد کہیں نیند کی آغوش میں چلے گے۔ رات بارہ بجے بجلی بند ہو گئی۔ 24 فروری کی تاریخ بدل گئی۔ بجلی بند ہونے کے چند لمحوں بعد ہی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ جس سے گھروں کے درودیوار ہل گئے۔ ہم سب لوگ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔
اس دھماکے کیساتھ ہی گولہ باری اور شدید فائرنگ کا ایسا طوفان برپا ہوا کہ اگلے ڈیڑھ گھنٹے تک ہمیں اپنی آواز بھی سنائی نہ دی۔ بظاہر جنگ کا ماحول ہی لگ رہا تھا۔ اور ہم خوف میں ذہنی طور پر تیار تھے کہ دشمن پیش قدمی کر رہا ہوگا۔کسی سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ہم نچلے محلے والے اپنی محدود حکمت عملی میں مصروف تھے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ بھاگ سکتے نہیں تھے۔ اس لئے یہ کیا کہ گھروں سے نکل کر دائیں بائیں کچھ عارضی پناہ گاہوں میں چھپ کر حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ اور طوفان کے تھمنے کا انتظار کرتے رہے۔
اسی خوفناک صورتحال میں رات کے ڈیڑھ بج گئے۔ پھر اچانک گولہ باری کا طوفان بالکل تھم گیااور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ خاموشی کے اولین لمحے میں ہمارے عقب سے کراہنے کی خوفناک آوز آئی۔تو ہم ڈر گئے۔۔لیکن ہمت کر کے پکارا۔
کون ہے؟؟ کون ہے؟؟؟
“میں اشتیاق ہوں۔مجھے گولی لگی ہے۔مجھے بچاو۔۔۔”
اشتیاق عبد الحمید کا نواسہ اور صوبیدار محمد حسین تھا جو فوج میں تھا اور چھٹی پر تھا۔ ہم بھاگ کر اشتیاق کی پاس پہنچے۔ وہ شدید زخمی تھا۔ بھاگتے ہوئے دشمن نے اشتیاق پر فائر کیا گولی اسکی پیٹھ میں لگی اور سینے کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ اس کے سینے میں ایک بڑا گھاو بن گیا تھا۔ بہت خون بہہ گیا تھا لیکن وہ ہوش میں تھا۔ ہم نے اسے چادر میں لپیٹا۔اور نیچے گھرلائے۔کپڑے سے اس کا خون بند کیا۔اتنی دیر میں شور بلند ہونے لگا تھا۔ ایک اور فوجی نوجوان جو چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا۔ وہاں سے زخمی حالت میں بھاگنے میں کامیاب ہو چکا تھا ورایک محفوظ جگہ پر پہنچ چکا تھا۔
اشتیاق نے مختصرا بتایا کہ نانا جان کے گھر انڈین کمانڈوز نے سب کو ماردیا ہے۔ وہ پھر بےہوشی میں چلا گیا۔ بہت شدید زخمی تھا۔ اور سردی سے ٹھٹھر چکا تھا۔ ہم نے اسے چادروں میں لپیٹااور چند ساتھیوں کےحوالے کیا کہ اسکو خاموشی کیساتھ فائرنگ رینج سے نکال۔ اب کیا کیا جائے۔ اوپر والے گھر پہنچنا تھا۔ ایک دو نوجوان کمر بستہ ہو گئے۔ اور اوپر کی طرف چل پڑے۔ جب قریب پہنچنے لگےتو ہماری پاک فوج کے جوان بھی پہنچ گئے۔ انہوں نے آگے جانے سے روکنا چاہا۔ لیکن ہم نے کہا کہ آپ ہمیں کور فائر دیں۔ ہم آگے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم فائر نہیں کر سکتے۔ ہم نے پوزیشن لے لی ہے۔ آگے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ فائر کیا تو واپس نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ انتہائی ضرورت میں فائر کر کے نیچے ہو جائیں گے۔ آپ اپنے رسک پر جا سکتے ہیں۔
ہمیں خدشہ تھا کہ دشمن آس پاس ہوا تو ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بہرحال ہمت کر کے کچھ آگے بڑھے۔ مکان کے بلکل قریب سے جائزہ لیا۔ بلکل خاموشی تھی۔ یعنی کسی کے زندہ بچنے کے کوئی آثار نہیں لگ رہے تھے۔ ہم نے اپنی ساری قوتوں کو مجتمع کیا۔کچھ اور لوگ بھی پہنچ گئے۔ آنے والی خواتین چیخ و پکار کرنے لگی۔ مرد حضرات انکو چپ کرا رہے تھے۔
یہ ایک خود کش ہمت والی بھرپور کوشش تھی کہ ہم تین چار لوگ ایک ساتھ گھر کے اندر داخل ہو گئے۔ جن میں صوبیدار محمد حسین، بابا اللہ دتہ خان، ذولفقار اور کچھ خواتین شامل تھیں۔ اب یہ لمحات ہمارے اعصاب کی ہمت کا امتحان تھے۔ آپ بھی ہمت سے سنیں۔
مکان کے لکڑی کے بڑے بڑے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ ہمارے پاس ٹارچ تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی بارود کی بدبو نے ہمارا استقبال کیا۔ اوپر سے دشمن یقینا ہمیں مانیٹر کر رہا تھا لیکن وہ خاموش تھا۔ ٹارچ جلائی تو سامنے فرش پر ایک لاش پڑی تھی۔ اسکی گردن ساتھ نہیں تھی۔ پاس میں ایک چارپائی ٹوٹی ہوئی تھی جو اسکی طرف سے کی گئی مزاحمت کی عکاسی کر رہی تھی۔ ہم نے غور کیا تو یہ حال ہی میں شادی کے بندھن میں بندھنے والا نوجوان مرتضی تھا۔ کچھ کاغذات وغیرہ اسکے سینے پر پڑے ہوئے تھے۔ جو اسکی جیب سے نکلے تھے۔ لیکن اسکی بیوی ہمیں نہ مل سکی۔
یہ مکان کا داخلی حصہ تھا جسکو اپنی زبان میں” پسار” کہتے ہیں۔ وہاں ہمیں دو تین لاشیں اور بھی ملیں۔ لیکن پہچان نہ ہو سکی۔ جب ہم نے باتیں کرنا شروع کیں اور لاشوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔ تو نیچے سے ہمیں دو بچیاں زندہ سلامت مل گئیں۔ انہیں بال برابر زخم نہیں تھا لیکن وہ شاک میں تھیں۔ جب ہم نے ہلایا تو وہ چیخ پڑیں۔ انکو اٹھا کر ہم نے نیچے بھیجا وہاں سے ہمیں دوبچے بھی زندہ ملے جو زخمی تھے اور شاک میں تھے۔ بعد ازاں ہاسپٹل میں انکی بھی ڈیتھ ہو گئی۔
اب ہم ایک اور کمرے میں داخل ہوئے۔ اس کمرے میں دونوں بزرگ تھے۔ 90 سالہ بابا محمد عالم اور انکے ہم عمر مولوی فیض بابا عالم ایک صوفے پر بیٹھے تھے لیکن انکی گردن ساتھ نہیں تھی۔ ساتھ ہی دوسری کرسی پر سفید ریش مولوی فیض۔ ایسا لگا وہ بلکل زندہ سلامت ہیں۔ لیکن خاموس تھے۔ ہم نے ہلایا تو انکی گردن دوسری طرف ڈھلک گئی۔ وہ بھی شہید ہو چکے تھے۔
اب تیسرے کمرے کی طرف بڑھے۔ وہاں دو معصوم بچے فریاد اور عماد اپنی والدہ کی گود میں دم توڑ چکے تھے۔ فریاد کا آدھا چہرہ اڑ چکا تھا اور اسکی والدہ کو کئی گولیاں لگی تھی۔ وہ تینوں دم توڑ چکےہوئے تھے۔ ہم کسی شہید کو نہیں اٹھا رہے تھے۔ بلکہ زندہ اور زخمیوں کو تلاش کر رہےتھے۔ اب آخری کمرے میں داخل ہوئے۔ تو ایک خاموش زخمی خاتون نے اچانک چیخ ماری۔ ہم پاس پہنچے۔اسکی 8 سالہ بچی اسکے پاس شہید پڑی تھی۔ ہم نے اس خاتون کو اٹھانے کی کوشش کی۔ تو اسنے بتایا کہ میرا پیٹ کٹا ہوا ہے۔ مجھے نہ اٹھانا۔ دل دہلا دینےوالا منظر تھا۔ وہ خاتون حاملہ تھی۔ اسکا پیٹ پھاڑا ہوا تھا۔ وہ زندہ تھی۔ لیکن اس کی انتڑیاں باہر تھیں۔ اسکو ایک چادر میں لپیٹا اور کچھ لوگ اسکو لیکر بھاگتے ہوئے فائرنگ رینج سے نکلنے لگے۔ اب زخمی اور زندہ لوگوں کو نکال چکے تھے۔ یہ زخمی خاتون زخمی نوجوان یونس کی اہلیہ تھی۔ اسکو جب لیکر ہم تھوڑے نیچے پہنچے تو اس نے کہا کہ مجھے آگے نہ لے جاو۔ اپنے اکلوتے بچےسے ملوا دو۔ لیکن زخمی بچے کو ہم پہلے ہی روانہ کر چکے تھے۔
یہ خاتون چند لمحے زندہ رہی۔ پھر اپنے زخمی خاوند کیساتھ باتیں کرتے کرتے شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئی۔ اب ہم نے جو گنتی کی تھی اسکے مطابق ہمیں مرتضی کی نو بیاہتا بیوی نہیں مل رہی تھی۔ ہوا یوں کہ جس کھڑکی سے اشتیاق اور یونس نکل کر بھاگے تھے۔ اور بھاگتے ہوئے زخمی ہوئے تھے اسی کھڑکی سے وہ خاتون بھی نکلی اور چیخ و پکار کرتے جب بھاگی تو بھاگتےہوئے پہلے اسکو گولیاں ماری گئی۔ پھر ادھر نماز کے لئے پتھروں سے ایک جگہ بنائی ہوئی تھی۔وہا اسکو ذبح کیا گیا اور دایاں بازوں اور گردن لیکر دشمن فرار ہو گیا۔ اسکی لاش صبح کے وقت ملی۔ المختصرجو دو بچے ہاسپتال پہنچائے گئے۔ ایک یونس کا بچہ اور ایک صوبیدار محمد حسین صاحب کا۔ وہ بھی بعد ازاں دم توڑ گئے۔ یونس اور اشتیاق شدید زخمی تھے۔ لیکن بعد ازاں وہ علاج معالجے سے صحتیاب ہو گئے۔
اس گھر میں موجود 18 میں سے دو بچیاں زندہ سلامت بچ گئیں۔ اور دو زخمی اشتیاق اور یونس زندہ بچے ۔ باقی 14افراد شہادت کےرتبے پرفائز ہوئے۔ صبح ہوئی تو لوگ بے خوف ہو کر اس گھر پہنچےاور دشمن کے سامنےلاشیں نکالیں اور انکو ڈبسی کے مقام تک لائے۔ جہاں شہدا کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگ شامل ہوئے۔ بعد ازاں شہدا کو ڈبسی کے مقام پر دفن کیا گیا جہاں ایک یادگار بنائی گئی یے۔
شہید ہونےوالوں میں۔۔
1 ۔۔۔۔بچی۔
4 ۔۔۔۔بچے۔
6۔۔خواتین ۔۔۔۔اور
3 ۔۔مرد شامل تھے۔۔۔۔3 افراد کی گردنین اور بازوں کاٹے گے۔
یہ وہ دن تھا جس نے اس علاقے کی تاریخ بدل دی۔ لوگوں میں خوف وہراس پیدا ہوا۔ یہ سانحہ پوری دنیا میں مشہور ہوا۔ دنیا بھر سے انسانی حقوق کی تنطیمیں اور میڈیا یہاں آیا۔ پی ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلیں۔ دنیا بھر کے اخبارات نے اس ایشو کو ہائی لائیٹ کیا۔ پاکستان اور دنیا بھر میں بھارت کے خلاف مظاہرے ہوئے۔
شہداء کی یہ قربانی رفتہ رفتہ تاریخ کے بوسیدہ اوراق کی نذر ہونے لگی تھی۔ پھر گذشتہ سال ہم نے ایک اجتماعی کوشش اور دوستوں اور اہل علاقہ کے بھرپورتعاون سے شہداء کی یادگار پر 25 فروری 2021 کو ایک شاندار پروگرام منعقد کیا۔ پاک فوج کی مقامی یونٹ نے ہماری درخواست پر یادگار شہداء کی تزئین و آرائش کی۔ جبکہ نوجوانوں کی کاوش سے اس وقت کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے برسی کو سرکاری طور پر منانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا۔
نوٹ: یہ کہانی اس واقعہ کے متاثرین کے انٹرویوز سے ماخوز ہے
امناز خان کوٹلی میں ڈیلی کشمیر لنک ڈاٹ کام کے نامہ نگار ہیں