شنڈداس: آزاد کشمیرکا وہ گاوں جہاں آج تک کوئی سکول موجود نہیں

آزاد کشمیر شرح خواندگی کے اعتبار سے پاکستان کے چاروں صوبوں اورگلگت بلتستان سے نمایاں رہا ہے تاہم آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ آزاد کشمیر کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں بچوں کے لیے کوئی سکول موجود نہیں۔ شہروں میں جہاں سفری سہولیات میسر ہوں وہاں تو لوگ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے گھر سے دور بھیج سکتے ہیں۔ تاہم پہاڑی علاقوں کے دور دراز علاقوں میں دشوار گزار راستوں پر بچوں کو گھر سے دور بھیجنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

وادی نیلم کے علاقے گریس ویلی میں ایک ایسا ہی گاوں موجود ہے جہاں آج بھی پرائمری سکول موجود نہیں اور مقامی لوگوں کے مطابق ان کے دو سو کے لگ بھگ بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیے کئی کلو میٹر دور جاتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں بارش اور برف باری کی دوران یہ سفر اپنی جان خطرے میں ڈالنے جیسا ہے۔
شنڈداس نامی اس گاوں کی کے رہائشی محمد افضل بٹ نے بتایا کہ ان کے گاوں میں 47 سال سے اس میں کوئی پرائمری اسکول نہیں ہے۔
‘جو بھی حکومت آئی ہے اس نے یہی اعلان کیا ہے ہم دیں گئے لیکن آج تک کسی نے نہیں دیا۔ گاوں میں چھوٹے بچوں کی تعداد تقریباً 200 ہے۔ انہیں چار کلو میٹر دور جانا پڑتا ہے۔ بچوں کو شوق ہے تعلیم حاصل کرنے کا، لیکن ہم وسائل نہ ہونے کی وجہ سے انھیں نہیں بھیج سکتے۔’

وہ کہتے ہیں: ‘ایک تو راستہ مشکل ہے سلائیڈنگ والا علاقہ ہے۔ ہمارا راستہ 6 مہینے تو بند رہتا ہے۔ اگر ہمارا کوئی فرد بیمار ہو تو کوئی وسائل نہیں کہ اسے جلدی اسپتال پہنچایا جا سکے۔ ہماری حکومت وقت سے یہ اپیل ہے جب(سردیوں کے موسم میں)
چھ ماہ کے لیے ہمارا راستہ بند ہو جاتا تو سہولیات فراہم کریں، تا کہ وقت پہ ہمارا مسلہ حل ہو جائے مریضوں کی جان بچ سکے۔’

محمد افضل بٹ نے مزید بتایا کہ: ‘تعلیم کے وسائل موجود نہیں ہیں ہمارے بچے بمشکل میٹرک تک ہی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ آگئے کی تعلیم کے لیے انہیں مظفرآباد جانا پڑتا ہے۔ ہمارا حکومت وقت سے مطالبہ ہے ہمارے مسائل پر توجہ دی جاے اور ان کو حل کیا جائے۔’

شنڈداس گاوں وادی گریس کے بالائی حصے میں واقع ہے اور یہ علاقہ سردیوں کے موسم میں چار سے پانچ ماہ بیرونی دنیا سے کٹا رہتا ہے۔ شنڈداس کے قریبی سرداری گاوں کے رہائشی محمد اختر کے مطابق اس گاوں کے چھوٹے بچے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے کیوںکہ اسکول دور ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ‘ یہ لینڈ سلائیڈینگ والا علاقہ ہے۔ خطرے کی وجہ سے لوگ بچوں کو اسکول نہیں بھیج سکتے۔ ہماری حکومت وقت سے اپیل ہے کہ وہاں پہ اسکول دیا جائے، تا کہ وہاں کے بچے اور بچیاں بنیادی تعلیم حاصل کر سکیں۔’

محمد اختر کے بقول: ‘ ہمارے پاس چند ایک ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں شہر میں جا کراعلی تعیلم حاصل کی ہے۔ ان کے پاس وسائل بھی تھے، ہمارے بچے بمشکل میٹرک تک ہی جا پاتے ہیں۔ آگے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ حکومت وقت سے اپیل ہے کہ ہمارے مسائل پر توجہ دی جائے۔’

سردیوں میں وادی گریس کے شہریوں کا دیگر علاقوں سے رابطہ مکمل طور پر کٹ جاتا ہے دارالحکومت کو ملانے والی واحد شاہراہ پر گاڑیوں پر سفر کرنا اپنی موت کو گلے لگانے جیسا عمل تصور کیا جاتا ہے مریضوں کو چارپائی پر اٹھا کر کیل کے ہسپتال لایا جاتا ہے طویل پیدل سفر کے دوران کئی مریض جان سے چلے جاتے ہیں اور واپس ان کی میتیں کندہوں پر اٹھا کر گھر پہنچائی جاتی ہیں ۔سردیوں میں وادی گریس کی زندگی پتھر کے دور کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں