عورت مارچ یا عورت آزادی مارچ کا پاکستان میں آغاز 2018 میں کراچی سے ہوا۔ تب سے ہر سال پاکستان کے کئی شہروں میں خواتین کا عالمی دن منانے کے لیے عورت مارچ منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ مارچ پاکستان میں خواتین کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کے مقصد کے تحت منعقد ہوتا ہے۔
اس سال اسلام آباد میں عورت مارچ کے سلسلے میں عورت آزادی جلسہ 8 مارچ کو منعقد کیا جانا تھا تاہم یہ جلسہ بعض وجوہات کی بنا پر دو روز قبل 6 مارچ 2022 بروز اتوار کو دوپہر 2 بجے سے شام 6 بجے ایف نائن پارک میں منعقد کیا گیا ۔
ہر سال اس دن کو خواتین کے عالمی دن یعنی 8 مارچ کو منایا جاتا تھا جب کے اس سال جلسہ کی تاریخ 8 مارچ سے تبدیل کر کے 6 مارچ کی گئی۔
عورت آزادی مارچ کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر یہ وجہ بتائی گئ کہ 6 مارچ کو اتوار ہے، اسی لیے تاریخ میں تبدیلی کی گئی ہے تاکہ “تمام خواتین، خاص طور پر محنت کش طبقے کی خواتین کے لیے عورت آزادی جلسہ میں شرکت کو آسان اور زیادہ قابل رسائی بنایا جا سکے اور حقوق نسواں اتحاد کو مضبوط اور برقرار رکھا جائے۔
🚨 Date Change Announcement!
— Aurat Azadi March Islamabad (@AuratAzadiMarch) February 25, 2022
The Aurat Azadi Jalsa in Islamabad will now be held on Sunday, 6th March. Here's why:#AuratAzadiJalsa2022 pic.twitter.com/5eVPITPNTH
تاہم کہانی کا دوسرا رخ کچھ یوں بھی ہے کہ اس سال، مذہبی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں نے 8 مارچ کو عورت مارچ ریلی کے خلاف کھڑے ہونے کی کال دی تھی، اور اسے ‘اسلام مخالف’ قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کے لیے کوئی بھی ذریعہ استعمال کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
اس کے علاوہ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 8 تاریخ کو ہونے والے عورت مارچ کے لیے این او سی اور سیکیورٹی دینے سے انکار کر دیا تھا ۔
We want to the draw attention of ICT administration and government that why women marchers are denied NOC? Are these streets not ours? Are we not citizens of Pakistani state. Are we children of lesser gods? We Will March! #MarchtoHoga@ncswpk @ShkhRasheed pic.twitter.com/lSdkPMlTDG
— Aurat March Islamabad (@Aurat_marchisb) March 7, 2022
آن لائن مہم بھی جاری ہے اور عوام کی جانب سے مختلف رائے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ #MarchTohHoga جس کے نتیجے میں ٹویٹر پر ہیش ٹیگ
سال 2022 کے جلسے کا تھیم اس شہر کے پسماندہ علاقوں سے آنے والی خواتین کو با اختیار بنانا تھا۔
عورت آزادی مارچ کی انتظامیہ کے مطابق وہ اس جدوجہد کو اس وقت تک جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہیں جب تک کہ پدر شاہانہ جبر کی تمام شکلوں سے ہماری نجات نہیں ہو جاتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس تحریک کے لیے اپنے جینے کے حق کے تحفظ، امن اور ترقی کے حصول، سب کے لیے وقار اور مساوات کو یقینی بنانے اور پاکستان میں عوامی جمہوریت اور مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے وقف ہیں۔
اور ہماری تحریک تب تک نہیں روکے گی جب تک عورت کو معاشی اور معاشرتی طور پر ترقی کرنے میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہم تب تک آزادی کا الم بلند کرتے رہیں گے جب تک اس ملک میں ایک ایسا جمہوری نظام نہیں رائج ہوتا جہاں سب برابری اور مساوات کی بنیاد پہ باعزت زندگی گزار سکیں۔
ہم فیمنسٹ مزاحمت اور یکجہتی کے جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے ان تمام فیمنسٹ اور ترقی پسند تنظیموں، اداروں اور شہریوں کو جو کہ صنفی مساوات پر یقین رکھتے ہیں، کو عورت مارچ میں شرکت کی دعوت دی تھی تاکہ ہم سب کی برابری کے لیے جو جدوجہد ہے وہ مضبوط ہوسکے۔
کیونکے پدر شاہی اور اس سے جڑے سرمایہ دارانہ، جاگیر دارانہ، سامراج اور مذہبی انتہا پسندی کے نظام معاشرے میں موجود ظلم اور جبر کی جڑیں ہیں جو کہ صنفی، معاشی اور نسلی بنیاد پر امتیاز اور تعصب کا باعث بن رہی ہے اور جس کی چکی میں معاشرے کے مختلف طبقات پس رہے ہیں۔
ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنی تحریک تب تک جاری رکھیں گے جب تک عورت اور اقلیتی برادریاں پدرشاہی اور اس کے مروجہ نظام کی قید سے آزاد نہیں ہوجاتیں۔
اور جب تک عورت کو اپنے ذات اور زندگی پر مکمل حق اور اختیار حاصل نہیں ہوجاتا۔
ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے مختلف گروہوں اور طبقات فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے تبادلہ خیال، مکالمات اور گفتگو کے بعد ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ ان تمام طبقات، جن کے ساتھ ہم یکجہتی اور اخوت کا رشتہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں کے افکار اور ترجیحات کو ہم عورت آزادی مارچ کے موضوعات اور مقاصد میں شامل کرتےرہیں۔
ہم پر امید ہیں کہ اس سال کے جلسے کے نتیجے میں فیمنسٹ تحریک میں شامل مختلف گروہوں اور طبقات فکر کے درمیان ایک ایسا مباحثہ جنم لے گا جس کی روشنی میں ہم اپنے نظریات کی توثیق اور اپنی جڑیں پختہ اور مضبوط کر سکیں۔
ہماری فیمنسٹ نظریے سے وابستگی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہم اختلاف رائے اور متنازعہ خیالات کو مثبت انداز میں لے کر آگے بڑھیں اور ایک ایسے ماحول کو جنم دیں جو کہ مستقبل میں باہمی ہم آہنگی اور یکجہتی کے لیے راستہ ہموار کر سکے۔
اس جلسے کا مقصد ایک ایسی سیاست کا آغاز کرنا ہے جو مستقبل کے لیے ہمارے تصورات کی ترجمان ہو۔
ہمارے لیے موجود حالات میں، جب ہمیں مختلف گروہوں سے خطرات اور منفی ردعمل کا سامنا ہے ، اس جلسے کا انعقاد ایک نہایت ہی پیچیدہ اور مشکل امر تھا اس سب کے باوجود ہم نے اس جلسے کی انعقاد کی تیاریاں اس جذبے اور امید کے ساتھ کیں کہ یہ ہمارے معاشرے میں ایک نئی سوچ، جو کہ قدامت پسندی سے پاک ہوگی کو جنم دینے کا باعث بنے گا۔
یہ جلسہ پاکستان فیمنسٹ تحریک کے لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ یہ فیمنسٹ تحریک کے کارکنوں کی ان تمام جدوجہد اور کوششوں کی عکاسی کرتا ہے جو کہ پس پردہ سال کے 365 دن جاری رہتی ہیں۔
عورت آزادی مارچ فیمنسٹ تحریک کو مضبوط اور معاشرے کے مختلف طبقوں کی آواز اور جذبات کا ترجمان بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ عورت آزادی مارچ خواتین، خواجہ سرا، متجنس افراد، جنسی اور دوسری اقلیتی برادریوں کے لیے ایک ایسا مساوی ماحول فراہم کرے جہاں وہ مشترکہ انداز میں اپنی مزاحمت کا اظہار اور عکاسی کر سکیں۔
اسی جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے عورت آزادی مارچ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارا جلسہ ناصرف پدرشاہانہ نظام کے خلاف آواز بنے گا بلکہ ملک میں رائج اس جیسے تمام نظاموں کے خلاف نعرہ بلند کرے گا۔
ساتھ ہی ساتھ یہ جلسہ فیمنسٹ تحریک اور سیاست کے مقاصد بھی اجاگر کرے گا۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمارے جلسوں کے نتیجے میں عورتوں اور اقلیتی برادریوں کے مسائل کے بارے میں معاشرے میں شعور پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد متحرک ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں کچھ تلخ اور منفی تجربات بھی سامنا ہوا ہے جن میں فیمنسٹ تحریک کے کارکنوں کے خلاف پر تشدد اور جابرانہ اقدام شامل ہیں۔
اس سال کا جلسہ ہمارے پچھلے سالوں کے جلسوں کے پیچھے برسرکار انتھک محنت، جدوجہد اور ہماری تجربات کی عکاسی کرتا ہے ۔
ساتھ ہی ساتھ یہ جلسہ فیمنسٹ سیاست کے اقدار، جو کہ موجودہ نظام کے خلاف مزاحمت اور جائے عام میں اپنے حق کے مطالبات پر مبنی ہے، کی توضیح کرتا ہے ۔ یہ جلسہ اس امر کا بھی عکاس ہے کہ ہماری سیاست وقت اور ضرورت کے مطابق ڈھل رہی ہے۔
گزشتہ سالوں میں ہم نے عورت آزادی مارچ کا ہماری زندگیوں پر مثبت اثر دیکھا ہے۔
عورت مارچ کی شکل میں خواتین کا متحرک ہونا اس عقیدے کو ختم کر دیتا ہے کہ خواتین اپنے ساتھ ہونے والے جبر سے آگاہ نہیں ہیں بلکے اب وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا اور انصاف ک جدوجہد کے لیے کوشاں ہیں۔
سیدہ ماہ نور نمل یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں۔ وہ سماجی مسائل پر رپورٹنگ اور میزبانی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
ان دنوں وہ کشمیر لنک کے ساتھ انٹرن رپورٹر کے طور پر منسلک ہیں
@mahnoor_alishah