پاکستان میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے آپوزیشن نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کروا رکھی ہے اور اب امکان ہے کہ یہ اجلاس 21 اپریل کو طلب کیا جائے اور تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ممکنہ طور 29 مارچ کو ہو گی۔
پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی کی بنیاد پر انتخابات ہوتے ہیں۔ اور جو پارٹی، قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت حاصل کرتی ہے، وہ اپنا پارلیمانی لیڈر منتخب کرتی ہے، جس کو وزیر اعظم کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ پارٹی جن کے ارکان کی مجموعی تعداد کم ہوتی ہے، وہ اپوزیشن کہلاتی ہے۔
اپوزیشن بھی اپنا ایک لیڈر منتخب کرتی ہیں جو اپوزیشن لیڈر ہوتا ہے۔ اگر اپوزیشن حکومت کی کار کردگی سے مطمئن نہ ہو اورحکومت کو ہٹانا چاہے تو اس کا آئینی طریقہ ہے جس کے تحت حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد چلائی جاتی ہے۔ آئینی امور کے ایک ماہر قانون دان کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کارروائی آئین کے آرٹیکل 95 اور قومی اسمبلی کے 2007 رولز آف بزنس کے رول 37 کے تحت ہو تی ہے۔
تحریک پر تین دن سے پہلے اور سات دن کے بعد ووٹنگ نہیں ہو سکتی، مطلب تین سے سات دن کے عرصے میں ووٹنگ کی جاتی ہے۔ اور اس ووٹنگ سے پہلے اور بعد میں ایک طویل آئینی طریقہ کار اپنانا ہوتا ہے۔ آرٹیکل 95 (4) کے مطابق قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فاٸز نہیں رہ سکتے۔ اگر تحریک کامیاب ہو جاٸے تو نٸے وزیر اعظم کا انتخاب ہو گا اور ناکامی کی صورت میں چھ ماہ تک دوبارہ تحریک نہیں لائی جاسکتی۔
وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے اوپن ووٹنگ کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن ڈپٹی اسپیکر، اسپیکر، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لئے خفیہ رائے شماری کی جاتی ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ملک میں کسی بھی وزیر اع کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوسکی۔
ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد 1989 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف پیش کی گئی تھی لیکن قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو 12 ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔237 ارکان کے ایوان میں بے نظیر بھٹو کو ہٹانے کےلئے 119 ووٹ درکار تھے ، تحریک نے 107 ووٹ حاصل کیے اور وزیراعظم نے 125 اعتمادکے ووٹ حاصل کیے تھے۔
دوسری مرتبہ تحریک عدم اعتماد اگست 2006 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کو ہٹانے کےلئےکی گئی تھی لیکن اپوزیشن کامیاب نہ ہوسکی۔ 342 ارکان کے ایوان میں شوکت عزیز کو ہٹانے کےلئے 172 ووٹ درکار تھے، لیکن عدم اعتماد کی تحریک کو 136 ووٹ مل سکے اور شوکت عزیز نے ووٹ 201 لے کر اپوزیشن کو شکست دی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں تیسری مرتبہ ہے کہ منتخب وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد چلائی جارہی ہے۔
اگر تحریک کامیاب ہو گئی تو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں عمران خان پہلے وزیراعظم ہوں گے جو اس تحریک کی وجہ سے اپنے عہدے سے رخصت ہو گے۔ اس بار کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی یا پھر نئی تاریخ رقم ہوگی اس کا فیصلہ آئندہ ہفتوں میں کیا جائے گا۔ تحریک عدم اعتماد نہ صرف وزیراعظم کے خلاف چلائی جاتی ہے بلکہ اسپیکر اور وزیراء کے خلاف بھی کی جاتی ہے۔
سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف 2019 میں اپوزیشن جماعتوں نے یہ تحریک چلائی لیکن اپوزیشن کامیاب نہ ہو سکی اور پھر دوبارہ ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کے خلاف دو مرتبہ تحریک جمع کروا کے واپس لے لی۔
ماضی میں سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین کے خلاف دو بار تحریک عدم اعتماد چلائی گئی مگر یہ بھی ناکام رہی۔ 1985 میں سپیکر فخر امام کے خلاف تحریک عدم اعتماد چلائی گئی اور اپوزیشن اس تحریک میں کامیاب ہوٸی۔ سابق وزیراعلی پنجاب غلام حیدر واٸیں کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک چلائی گئی اور یہ کامیاب ہوٸی۔ سابق وزیر اعلی بلوچستان ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی لیکن وزیراعلی صاحب نے تحریک عدم اعتماد آنے پر استعفی دے دیا تھا۔
مریم قربان اسلام آباد میں نمل یونیورسٹی کی طلبہ ہیں۔ وہ رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان دنوں وہ کشمیر لنک کے ساتھ انٹرن رپورٹر کے طور پر منسلک ہیں۔