اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان نے سیاسی اور معاشی بحران کے شکار ملک میں مزید گرما گرمی کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔
اپوزیشن کے اعلان سے سیاسی درجہ حرارت اچانک بڑھ چکا ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ ، ملاقاتیں ، حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں میں توڑ پھوڑ کی خبریں بھی سامنے آنا شروع ہو گٸیں ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی نمبر پورے ہونے کے دعوے کر رہی ہیں عدم اعتماد کی تحریک لاٸی جاتی ہے یا نہیں اور اگر ایسا ہوا تو اس کا انجام کیا ہو گا یہ آنے والے چند روز میں واضح ہو جائے گا۔
پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک کو تاریخ کے آٸینے میں دیکھا جاٸے تو ماضی میں یہ تحریکیں ناکامی کا ہی شکار ہوٸیں۔ تاریخ میں پہلی بار تحریک عدم اعتماد 1782 میں برطانیہ کے وزیراعظم لارڈ نارتھ کے خلاف پیش ہوٸی۔ انگلینڈ کے گیارہ وزراءاعظم کو عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح انڈیا کے تین وزراءاعظم کو عدم اعتماد کی وجہ سے گھر جانا پڑا۔ جن ممالک میں دو جماعتی جمہوریت راٸج ہے وہاں تو حکومت بآسانی ایسی تحریکوں کو ناکام بنا دیتی ہے مگر جن ممالک میں کثیر الجماعتی پارلیمنٹ ہو وہاں ایسی تحریکوں کی کامیابی مزید افراتفری کو جنم دیتی ہیں۔ کم تعداد رکھنے والی چھوٹی جماعتیں مل کر اتحادی حکومت تشکیل دیتی ہیں جو بعد ازاں مزید ابتری کا باعث بنتی ہیں کیونکہ ہر سیاسی جماعت اپنے مقاصد کے لیے کام کرتی ہیں اس لیے اتحادی حکومتوں کا دورانیہ نسبتا کم ہوتا ہے۔
پاکستان کی تاریح میں دو وزراءاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آٸی۔ محترمہ بے نظیر بھثو شہید کے خلاف 1989 اور شوکت عزیز کے خلاف 2006 میں۔ یہ دونوں تحاریک ناکام ہوٸیں۔ کہا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک کو ناکام بنانے میں اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب میاں نواز شریف کا بھی ہاتھ شامل تھا کیونکہ اگر تحریک کامیاب ہو جاتی تو غلام مصطفی جتوٸی وزیر اعظم بن جاتے جو شاید نواز شریف کے لیے قابل قبول نہ تھا۔
ماضی میں سپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین کے خلاف دو بار تحریک عدم اعتماد آٸی مگر وہ ناکام ہی رہی۔ موجودہ چیرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہو سکی۔ 1985 میں سپیکر فخر امام کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوٸی۔ فخر امام نے اس وقت کے ڈکٹیٹر ضیاالحق کے فیورٹ اور خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی لہذا چودہ ماہ بعد عدم اعتماد لاٸی گٸی جس میں فخر امام کو شکست ہوٸی اور انھیں جانا پڑا۔
سابق وزیراعلی پنجاب غلام حیدر واٸیں کےخلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوٸی۔ سابق وزیر اعلی بلوچستان ثنااللہ زہری نے تحریک عدم اعتماد آنے پر استعفی دے دیا تھا آٸینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی قرارداد بیس فیصد اراکین اسمبلی کے دستخط سے جمع کراٸی جاٸے تو سپیکر سات دن میں اس پر کاررواٸی مکمل کروانے کا پابند ہے۔ قرارداد جمع ہونے کے بعد اجلاس بلانے اور ووٹنگ کروانے سمیت دیگر امور کو سات روز کے اندر مکمل کرنا سیکریٹیریٹ کی ذمہ داری ہے آٸین کے آرٹیکل 95 کے تحت وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینا لازمی ہے۔
آرٹیکل 95(2) کے مطابق قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد تین دن سے پہلے یا سات دن کے بعد ووٹنگ نہیں ہو سکے گی۔ آرٹیکل 95 کی شق 4 کے مطابق قرار داد کے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فاٸز نہیں رہ سکتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تحریک کامیاب ہو جاٸے تو نٸے وزیر اعظم کا انتخاب ہو گا اور ناکامی کی صورت میں چھ ماہ تک دوبارہ تحریک نہیں لاٸی جاسکتی۔
وزیر اعظم کے خلاف تحریک میں اوپن بیلیٹنگ جبکہ سپیکر اسمبلی یا چیرمین سینٹ کے خلاف خفیہ راٸے شماری کی جاتی ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں صدر پاکستان چیف ایگزیکٹو کے چناؤپر سابق وزیر اعظم کو عبوری طور پر کام کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں۔