پاکستان میں قانونی اور آئینی ماہرین کے مطابق ایک مرتبہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نوٹس موصول ہو جانے کی صورت میں سپیکر کے پاس سات روز کے اندر اندر اس سارے عمل کو کسی بھی منطقی انجام تک پہنچانے کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں رہ جاتا۔
جب انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی اور آئینی ماہرین سے تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کی صورت میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں ممکنہ تاخیر سے متعلق دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس عمل میں تاخیر ممکن نہیں۔
پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’یہ ممکن ہی نہیں کہ سپیکر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا نوٹس موصول ہونے کی صورت میں مخصوص مدت کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس نہ طلب کریں، یہ ان کی صوابدید ہی نہیں ہے۔‘
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 95 بالکل واضح طور پر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں کارروائی سات دن کے اندر اندر مکمل کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔
ان کے مطابق ’عدم اعتماد نوٹس پر وصولی کے پہلے تین دن میں ووٹنگ نہیں ہوسکتی، تاہم یہ سارا قضیہ بہرصورت نوٹس ملنے کے بعد سات دن میں مکمل ہونا ضروری ہے، ایسا آئین اور اسمبلی رولز میں لکھا ہے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتوں پر مشتمل حزب اختلاف وزیراعظم عمران خان کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے مسند اقتدار سے ہٹانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
اپوزیشن کے علاوہ حکومتی جماعت میں بھی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد کو ناکام یا ’غیر موثر‘ بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، اور اس سلسلے میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں تاخیر کو سب سے کار آمد حربہ تصور کیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل عمران شفیق کا کہنا تھا کہ ’آئین پاکستان کی منشا یہی ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا عمل زیادہ سے زیادہ سات روز میں مکمل ہو، جس میں قومی اسمبلی کے اجلاس کا بلایا جانا، تحریک کا پیش ہونا، ووٹنگ اور دوسرے تمام متعلقہ کام شامل ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد صرف آرٹیکل 95 اور اس کے تحت بننے والے قومی اسمبلی کے طریقہ کار کے قوانین (رولز آف پروسیجر) کے سیکشن 37 کے تحت ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے مزید کہا کہ ’عدم اعتماد کا نوٹس موصول ہونے کی صورت میں قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بھی بلایا جائے تو ایسا تصور ہو گا جیسے عدم اعتماد پر عمل ہو گیا ہے۔‘
اس سلسلے میں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 254 کا حوالہ دیا جو کہتا ہے: ’جب آئین کے مطابق کوئی عمل یا کام کسی خاص مدت کے اندر کرنا ضروری ہے اور اسے اس مدت کے اندر نہیں کیا جاتا ہے تو اس عمل یا چیز کا کرنا صرف اس وجہ سے باطل یا غیر موثر نہیں ہوگا کہ یہ کام اس مدت کے اندر نہیں کیا گیا تھا۔‘
تحریک عدم اعتماد کا پیش ہونا
آئین کے آرٹیکل 95(1)کے تحت وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم 20 فیصد کے برابر اراکین تحریری نوٹس اسمبلی سیکریٹیریٹ میں جمع کراسکتے ہیں۔
آرٹیکل 95(2) میں لکھا ہے: ’شق (1) میں جس قرارداد کا ذکر ہے، اس پر قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد سے تین دن سے پہلے یا سات دن بعد ووٹنگ نہیں ہو سکے گی۔‘
جب کہ اسی آرٹیکل کی شق 4 کے مطابق مذکورہ قرار داد کے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہیں گے۔
قومی اسمبلی کے طریقہ کار کے قوانین کی شق 37 وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے طریقہ کار کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نوٹس کی وصولی کے بعد سیکریٹری اسمبلی جلد از جلد اسے اراکین کو ارسال کریں گے، جب کہ اگلے ورکنگ ڈے اسے آرڈر آف دی ڈے میں متعلقہ اراکین کے نام درج کیا جائے گا۔
عرفان قادر کے مطابق: ’اس میں مزید درج ہے کہ قرارداد کے پیش ہونے کے بعد سپیکر ایوان کے بزنس کو ذہن میں رکھتے ہوئے تحریک پر بحث کے لیے ایک دن مقرر کر سکتے ہیں۔‘
طریقہ کار کے قوانین میں بھی تحریک عدم اعتماد کو سیکریٹریٹ میں جمع ہونے کے تین دن بعد اور سات دن کے اندر نمٹانے کا ذکر موجود ہے۔
اسی طرح رولز آف پروسیجر کے سیکنڈ شیڈول میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ایوان میں اوپن بیلٹنگ کے ذریعے ووٹنگ کا طریقہ کار بھی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
تحریک کی کامیابی کی صورت میں کیا ہوگا؟
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عارف چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وہ اپنے عہدے سے فارغ تصور ہوں گے۔
تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ صدر مملکت موجودہ وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ان کے جانشین کے انتخاب تک ذمہ داریاں انجام دینے کا کہہ سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عبوری وزیراعظم اور عبوری حکومت صرف قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد تعینات ہوتے ہیں جبکہ عدم اعتماد کی صورت میں وہی چیف ایگزیکٹیو عارضی طور پر کام جاری رکھتے ہیں۔
پاکستان میں عدم اعتماد کی تاریخ
پاکستان میں اب تک دو منتخب وزرائے اعظموں کے خلاف تحاریک عدم اعتماد پیش کی جا چکی ہیں تاہم دونوں چیف ایگزیکٹیوز ان کے مخالفین کو شکست دینے میں کامیاب رہے تھے۔
پہلی تحریک عدم اعتماد سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف نومبر 1989 میں پیش کی گئی تھی جو قومی اسمبلی میں صرف 12 ووٹوں سے رد کر دی گئی۔
اسی طرح سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کو اقتدار سے ہٹانے کی خاطر حزب اختلاف نے 2006 میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی، لیکن اپوزیشن کو کامیابی نصیب نہ ہو سکی۔
صوبہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی ثنا اللہ زہری کے خلاف 2018 میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، تاہم انہوں نے ووٹنگ سے پہلے ہی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے موجودہ دور حکومت میں سینیٹ کے چیئرمین محمد صادق سنجرانی کے خلاف 2019 میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
تاہم سال 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے پہلے سپیکر سید فخر امام کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کامیاب رہی تھی۔