وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام امن پسند مذہب ہے، اسلام کا دہشتگردی اورانتہاپسندی سے کوئی تعلق نہیں۔
مسئلہ کشمیرکے منصفانہ حل کے لیے عالمی برادری کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہم فلسطین اور کشمیر کے معاملے پر ناکام ہوئے۔ ڈیڑھ ارب آبادی ہے کہ مگر ہم اس قابل نہیں کہ مظالم کوروک سکیں۔ افغانستان میں انسانی بحران ہے۔ وہاں کے لوگ پسند نہیں کرتے کہ انہیں کوئی ڈکٹیٹ کرے۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ او آئی سی اجلاس پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہورہا ہے۔
اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کیلئے 15مارچ کا انتخاب اس لیے کیا کونکہ اس روز نیوزی لینڈ میں ایک شخص نے مسجد میں گھس کر مسلمانوں کو قتل کیا تھا۔ اس نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ اس کے نزدیک تمام مسلمان دہشتگرد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں بہت خوش ہوں کہ پہلی بار عالمی سطح پریہ ادراک کیا جارہا ہے کہ اسلاموفوبیا ایک حقیقت ہے اور اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں لیکن نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں اسلاموفوبیا بڑھتے ہوئے دیکھا۔ نائن الیون کے بعد دنیا بھرکے غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے مشکل ترین دور شروع ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک کے سربراہان کو اس حوالے سے آواز بلند کرنی چاہئے تھی۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کو دہشتگردی سے کس طرح جوڑدیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ دنیا کی ہرکمیونٹی میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملہ کرنے والا بھی ان کے معاشرے کا حصہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک میں مذہب کو اس طرح نہیں سمجھا جاتا جس طرح مسلم ممالک میں مذہب کو اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے مغربی ممالک توہین اور گستاخی سے متعلق مسلمانوں کے جذبات نہیں سمجھ سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مغرب میں رہ کر پتہ چلا کہ وہ اسلام کے بارے میں کیاسمجھتے ہیں۔ رسولۖ کے گستاخانہ خاکوں پرردعمل نہ دینے سے واقعات دہرائے گئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہیں جو اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ قرارداد مقاصد کے مطابق پاکستان کو مدینہ کے طرز پر اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ افسوس ہے کہ مسلمان خود مدینہ کی ریاست کے ماڈل سے آگاہ نہیں ہیں، میں لوگوں سے کہتا ہوں کے ایک عظیم انقلاب کے نتیجے میں بننے والی ریاست مدینہ کے ماڈل کو سمجھیں۔
انہوں نے کہا کہ حضرت محمد ۖ کی دنیا میں آمد کا مقصد انسانیت کو متحد کرنا تھا۔ انہوں نے ایک جدید نظام تشکیل دیا۔ انہوں نے کہا کہ میری بیٹی بھی جرم کرے تو وہ بھی سزا کی حقدار ہوگی۔ غریب ممالک پر نظرڈالیں، ان تمام ممالک میں یکساں بات یہی ہوگی کہ وہاں امیر اور غریب کے لیے علیحدہ قانون ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسلامی تاریخ کے پہلے دونوںخلفاء عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ان میں سے ایک خلیفہ ایک یہودی سے مقدمہ ہار گئے۔انہوں نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں اقلیتوں کے برابرحقوق تھے، قانون کی نظر میں سب برابر تھے، یہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست تھی جہاں انسانیت کا احساس تھا، غریب اور بزرگوں کو سہارا دیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ وہاں فلاحی ریاست کا جو تصور موجود ہے وہ مسلم ممالک میں کہیں نہیں نظر آتا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان ڈیڑھ ارب ہیں لیکن انہیں اہمیت نہیں دی جارہی، تمام مسلمان ممالک کی اپنی اپنی خارجہ پالیسی ہے۔افغانستان میں انسانی بحران ہے، وہاں کے لوگ پسند نہیں کرتے کہ انہیں کوئی ڈکٹیٹ کرے،40 سال ہوگئے ہیں کوئی قوم افغانستان کی طرح متاثرنہیں ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم فلسطین اور کشمیر کے معاملے پر ناکام ہوئے ، ڈیڑھ ارب آبادی ہے کہ مگر ہم اس قابل نہیں کہ مظالم کوروک سکیں، مقبوضہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں پر کوئی حل نہیں نکالاگیا۔
مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری غیرقانونی طورپر ختم کی گئی، عالمی برادری نے مقبوضہ کشمیر کے حل کیلئے کبھی دبا ئومحسوس نہیں کیا۔بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی خطے کی ڈیموگرافی کی تبدیلی وارکرائم ہے، بھارت اور اسرائیل دونوں آبادی کا تناسب بدلنے پر بضد ہیں مگر کوئی عالمی دبا ئونہیں ڈالاگیا۔
بھارت کشمیر میں باہر سے لوگوں کو لاکر مسلمانوں کو اقلیت بنارہا ہے، بھارت نے غیرقانونی طورپرکشمیرکا خصوصی اسٹیٹس ختم کیا۔
مسئلہ کشمیرکے منصفانہ حل کے لیے عالمی برادری کو کردار ادا کرنا چاہئے،یمن کے عوام کو انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کررہے ہیں ، عالمی قرار دادوں کے مطابق فلسطین کے مسئلے کا پرامن حل چاہتے ہیں۔یوکرین اور روس جنگ سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ یوکرین اور روس کے تنازع پر دنیاکو تشویش ہے، یوکرین ،روس میں جنگ بندی کیلئیکردار ادا کرنے کیلئے سوچنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ روس اور یوکرین تنازع روکنے کیلئے چینی وزیرخارجہ سے ملاقات کروں گا، ہم اس وقت ایک خاص پوزیشن میں ہیں کہ روس یوکرین تنازع روک سکیں ، دیکھاجائے اوآئی سی اور چین ملکر جنگ بندی کیلئے کیسے کردار اداکرسکتے ہیں۔وزیراعظم نے تمام معزز مہمانوں کو اپنے خوبصورت ملک میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا ہم ڈیڑھ ارب کی آبادی ہیں ،ہم نے کبھی اپنی صحیح وقت کو نہیں پہنچانا، کسی بلاک میں تقسیم ہونے کے بجائے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔