پاکستان میں گذشتہ روز ہونے والی سیاسی پیش رفت کے بعد اب عوام کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں اور سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا سپریم کورٹ سے تحلیل شدہ اسمبلی کی بحالی ممکن ہے؟
اسمبلیاں توڑنے کا اختیار وزیر اعظم کی ایڈوائس سے مشروط ہونے کے بعدپہلی مرتبہ استعمال ہوا۔ اس سے قبل صدر براہ راست 58 ٹو بی کا استعمال کر کے اسمبلیاں توڑ دیا کرتے تھے۔
آئین اور قانون کے ماہرین کے رائے ہے کہ اب یہ اختیار تنہا وزیر اعظم کا نہیں بلکہ یہ کابینہ کی توثیق سے مشروط ہے اور صدر کو ایڈوائس بھیجنے سے قبل کابینہ سے اس کی توثیق ضروری ہے۔ اور وہ حالات بھی بتانے پڑتے ہیں جن کے باعث اسمبلی تحلیل کیا جانا ناگزیر ہو۔
وزیر اعظم کے اختیارات سے متعلق سپریم کورٹ کی واضح رولنگ موجود ہیں۔ آرمی چیف کی سمری کے متعلق کیس کے دوران بھی سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ ان معاملات میں وزیر اعظم تنہا اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتا بلکہ کابینہ سے اس کی پیشگی منظور یا توثیق ضروری ہے۔
عمران خان نے آج اسمبلی توڑنے کی تجویز صدر کو ارسال کرنے سے قبل ایس کوئی پیشگی منظوری حاصل کی اور نہ توثیق کروائی۔ اور نہ ہی ان غیر معمولی حالات کی وضاحت کی گئی ہے جن کے تحت اسمبلی کی تحلیل ناگزیر ہو۔ کیا محض وزیر اعظم کی خواہش پر اسمبلی تحلیل کر دینا آئینی اقدام تصور ہو گا؟ اس کی وضاحت سپریم کورٹ ہی بہتر انداز میں کر پائے گی۔
اسمبلی کے اندر آج ڈپٹی سپیکر کی جانب سے دی گئی رولنگ پر بھی کئی آئینی اور قانونی اعتراضات موجود ہیں۔ زیادہ امکان تو یہی ہے کہ اس رولنگ کو آئینی سے تجاوز قرار دیکر کالعدم قرار دیا جائے تاہم اگر یہ رولنگ بحال بھی رہے تو غالب امکان یہی ہے کہ سپریم کورٹ اسمبلی توڑنے کے اقدام کو کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کر دے۔ جیسا کے صدر غلام اسحاق کی جانب سے توڑی گئی اسمبلی کو بحال کر دیا گیا تھا۔
اس وقت سپریم کورٹ نے اسمبلی تو بحال کی مگر آج کی طرح حکومت منجمد ہو چکی تھی۔ ملک میں آج ہی کی طرح افراتفری تھی اس لئے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کی مداخلت پر صدر اور وزیراعظم دونوں کو گھر جانا پڑا۔
حالات اب بھی لگ بھگ وہی ہیں۔ سپریم کورٹ اگر اسمبلیاں بحال کر بھی دے تو کابینہ تحلیل اور وزیر اعظم غیر فعال ہو چکے ہیں۔ تو پھر ملک میں حکومت کون چلائے گا؟ کیا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا سلسلہ جہاں سے ٹوٹا وہیں سے جوڑا جا سکتا ہے؟
فی الوقت اسمبلی کے ساتھ ساتھ کابینہ بھی تحلیل اور وزیر اعظم بھی برخاست ہو چکے ہیں۔ کیا اسمبلی بحال ہونے کے نتیجے میں ملک میں از سر نو حکومت سازی ہو گی یا عمران خان کی حکومت کو بھی بحال تصور کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو کیا آپوزیشن عمران خان کی حکومت کو تسلیم کر لے گی یا پھر کسی کی مداخلت کو صدر سمیت گھر کی راہ لینا ہو گی؟
کہا تو جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ اور اگر قبر کشائی کر کے مدفون نظریہ ضرورت کا مردہ نکال کر اسمبلی توڑنے کے اقدام کی عدالتی توثیق نہ ہوئی تو آنے والے دنوں میں حالات اور بھی دلچسپ کروٹ لے سکتے ہیں۔ان حالات میں جس کے پاس جتنا اختیار اور طاقت ہو گا اور مقتدرہ کا جس کے سر پر جتنا دست شفقت ہو گا وہ آئین کی مومی ناک کے ساتھ اتنی ہی چھیڑ چھاڑ کرے گا۔
جلال الدین مغل گذشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ فری لانس ملٹی میڈیا رپورٹر کے طور پر انہوں نے آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے متعلق مختلف موضوعات پر رپورٹنگ کی ہے۔ ان کا کام نیو یارک ٹائمز، انڈیپنڈنٹ اردو، وائس آف امریکہ، روزنامہ ڈان اور کئی دیگر قومی اور عالمی اخبارات اور جرائد میں شائع ہو چکا ہے۔