آزاد کشمیر کے ضلع حویلی کہوٹہ کے علاقے کلالی میں ایک ایسا انوکھا سکول بھی ہے جہاں استانیوں اور طالبات کسی کے لیے بیٹھنے کی جگہ اور فرنیچر میسر نہیں۔ استانیاں اور طالبات کھڑے کھڑۓ پڑھتی اور پڑھاتی ہیں۔
دو مقامی گروپوں کے درمیان لڑائی کی وجہ سے حویلی کہوٹہ کے گائوں کلالی کا گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی زبوں حالی کا شکار اور ہے اور سکول میں زیر تعلیم دو سو سے زائد طالبات کا مستقبل دائو پر لگ گیا ہے ۔ سکول کی عمارت تباہ حالی کا شکار ہے ، اساتذہ کے بیٹھنے کے لیے جگہ ہے اور نہ ہیں وہاں آنے والے مہمانوں کو بٹھانے کا کوئی انتظام ہے۔ طالبات بھی زیادہ وقت کھڑے کھڑے گزارتی ہیں۔
اسی سکول میں پڑھانے والی ایک ٹیچر(جس کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی) کا کہنا تھا کہ میں خود اسی سکول میں پڑھی ہوں آج یہاں کی ہیڈمسٹریس صاحبہ کی محنت سے یہ سکول چل رہا ہے۔ میں ایک کمیونٹی ٹیچر ہوں اور اسی سکول میں پڑھی ہوں۔
اسی سکول میں پڑھانے والی ایک ٹیچر(جس کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی) کا کہنا تھا کہ میں خود اسی سکول میں پڑھی ہوں آج یہاں کی ہیڈمسٹریس صاحبہ کی محنت سے یہ سکول چل رہا ہے۔ میں ایک کمیونٹی ٹیچر ہوں اور اسی سکول میں پڑھی ہوں۔
میرے بچپن سے لے کر اس وقت اس سکول کا کوئی حال نہیں۔ اب بھی یہ بچے پتھروں، اور زمین پر بیٹھ کرپڑھنے پر مجبور ہیں۔ اس سکول میں اس وقت دو پرائمری سکول، ایک سنئیر ٹیچر، ایک جونئیر ٹیچر کے علاوہ ایک کلرک اور چوکیدار ہیں جن کی رحم و کرم پر یہ سکول چل رہا ہے ۔
ٹیچرز کا کہنا تھا کہ سکول میں 200سے زائد طالبات پڑھ رہی ہیں جن کے بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں اور جن طالبات کے پاس گھروں میں کرسی یا ٹپائی، یا پیڑھی ہے تو وہ اپنے ساتھ لے آتی ہیں ۔ اس پر بیٹھ کر سارا دن پڑھتی ہیں او ر واپسی پر اپنے بستے کے ساتھ وہ کرسی ، ٹپائی یا پیڑھی اٹھا کر لے جاتی ہیں۔اساتذہ کرام کا کہنا تھا کہ سارا دن دھوپ میں بیٹھ کر بلڈ پریشرکم ہو جاتا ہے ۔
سکول کی بچیوں کو بیماریوں نے آن گھیرا ہے۔ سکول میں کوئی واٹر کی سپلائی نہیں نہ ہی لیٹرین کا کوئی خاطر خواہ انتظام ہے۔ سایہ کے لیے چھت نہیں ان کا کہنا تھا کہ ایک ہی کلاس روم ہے جس میں موسمی شدت کی وجہ سے دس کلاسز اکھٹی ہو جاتی ہیں۔ کلاس روم کے اندر دو ہی بورڈ ہیں جن پر باری لگ جاتی ہے ایک ٹیچر اپنی کلاس کو پڑھاتی ہے جب اس کا ٹائم ختم ہو جاتا ہے تو پھر دوسری ٹیچر اپنی کلاس کی بچیوں کو پڑھاتی ہے۔
اس طرح سکول ٹائم سے زیادہ لگ جاتا ہے ہم چاہتی ہیں کہ بچیاں جب اتنی مشکلات سے سکول میں آتی ہیں تو کچھ حاصل کیے بغیر نہ جا سکیںَ۔ ان کاکہناتھا کہ ہماری ہیڈمسٹریس صاحبہ نے دو کمیونٹی ٹیچر رکھے ہیں ایک فی میل ٹیچر اور قاری صاحب جن کو اپنی تنخواہ سے پانچ پانچ ہزار روپے ادا کرتی ہیں تا کہ سکول کا کام چل سکے۔
انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سکول کے ایک کمرے کی دیواروں کی دراڑین بند کرنے کے لے کچھ ریت بجری، اور سیمنٹ کا بندو بست کیا لیکن جب کوئی مستری یہاں پر کام کرنے کے لیے آئے تو اسے روک دیا جاتا ہے۔
ٹیچرز کا کہنا تھا کہ دنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اخیتار کر گئی ہے۔ اور ہم آج بھی پتھر کے دور کو تازہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ صرف ہمارے ہی سوچنے کا مقام نہیں بلکہ اس کمیونٹی کو ، اس سسٹم کو ، ان ٹھیکداروں کو اور حکومت وقت کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔
اسی سکول کی طالبات سے جب پوچھا گیا تو ان کے کہنے کے انداز انتہائی برہم والا تھا۔اور وہ بہت ہی ناراض لگ رہی تھی ایسے لگ رہا تھا کہ وہ سارا غصہ ہم پر نکال رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کیا قصور کیا ہے جسے ہم بھگت رہے ہیں تمام سکولوں میں بچوں کے بیٹھنے کے لیے اچھی جگہ ہے۔ پینے کے لیے صاف پانی ، بارش سے بچنے کے لے چھت، واش روم موجود ہیں۔ ہمارا کیا قصور ہیں۔
ان طالبات نے ان افراد کے خلاف نعرے بازی بھی کی جن کی وجہ سے سکول کی حالت زار ہوئی طالبات نے وزیر اعظم آزادکشمیر ، چیف سیکریٹر ی آزادکشمیر ، وزیر تعلیم سے اپیل کی ہے کا خدا کا واسطہ اپنے رزق کو حلال کر کے کھائیں ہمیں لوگوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کو پوچھتے بھی نہیں۔
اسی سکول کی ایک معذور بچی جو بچپن سے ہی ٹانگوں کی بیماری میں مبتلا ہے اس سے پوچھا گیا کہ اپ کیسے سکول آتی ہو تو اس کا کہنا تھا کہ مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے میرا بھائی مجھے صبح چھوڑ کر جاتا ہے پھر شام کو مجھے یہاں سے اٹھا کر گھر لے جاتا ہے۔ میرا ارباب اختیار سے سوال ہے کہ یہ وہ بچے ہیں جو کل کے معمار ہیں جنہیں آج ہی ختم کیا جا رہا ہے۔ان کا ذمہ دار کون ہے؟۔ان کے اس شوق پر کون شب خون مار رہا ہے؟
سکول کی ہیڈ مسٹریس کا کہنا ہے کہ سکول کا پہلا فرنیچر ایک شخص کے قبضہ میں ہے۔ نیا فرینچر جو لوکل گورنمنٹ کے تعاون سے ملا وہ ایک شخص کے پاس ہے جو پورا بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سکول کے لیے ایک شیلٹر کے لیے تحریک کی جس سے ہمیں 7لاکھ روپے ملنے تھے۔
ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ سکول کا جو رقبہ ایوارڈ شدہ تھا اس میں وہ شلٹر نہیں بنایا گیا۔ اور اسے کسی کی زمین میں وہ شلٹر بنا دیا گیا۔ اور وہ بھی اس سکول سے 2کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں سکول جہاں بھی بنے سکول کے لیے ایوارڈ شدہ ربقہ ہو۔
اب اس شیلٹر کی ہمارے پاس کوئی قانونی حیثیت نہیں وہ کسی کی ملکیتی زمین میں بنا دیا گیا۔ سکول کے کچھ یہاں پر ٹینٹ موجود تھے جو اب گروپوں کی لڑائی کی وجہ سے فرنیچر کے ساتھ ساتھ وہ بھی غائب ہیں، سردیوں کا موسم شروع ہونے والا ہے یہ سکول بھی گرماہی سٹیشن ہے۔ بچوں کے بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ہے۔
ہمار اعلاقہ برفانی ہے ۔اگر آمدہ برفوں سے پہلے سکول کو ایک دو شیلٹر زکا بندوبست نہ ہوا تو بچوں کو پڑھانا مشکل ہو جائے گا ۔ ہیڈمسٹریس کا کہنا تھا کہ سکول میں 4اساتذہ اور 200کے قریب طالبات ہیں جن کا ساری کلاسوں پر دسترس مشکل ہے ۔ اب شنید میں آیا ہے کہ کلسٹر کی دو ٹیچر کو بھی یہاں سے تبادلہ کیا جا رہا ہے۔
میں تو کہتی ہوں کہ اس سکول کو ہی بند کر دیں۔ ایک ہی دفعہ تمام ٹیچر کو دوسرے سکولوں میں تبادلہ کر دیں۔ تا کہ یہاں کے رہنے والے لوگ اپنے بچوںکے بہتر مستقبل کے لیے کوئی نیا لائحہ عمل اخیتار کریں ۔ ذرا سوچئے!
حماد الحسنین بخاری حویلی آزاد کشمیر میں روزنامہ کشمیر لنک کے نامہ نگار ہیں