اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وادی نیلم میں سب سے مشہور ٹریک چٹھہ کٹھہ جھیل کا ٹریک ہے، اور بیشتر سیاحوں کے دلوں میں اس ٹریک کی دہشت موجود ہے کہ یہ ایک تھکا دینے والا اور مشکل ترین ٹریک ہے، حتیٰ کہ اس ٹریک پر جانے سے پہلے میں نے یہ تک سن رکھا تھا کہ ڈیک ٹو کی چڑھائی کمر اور حوصلہ دونوں توڑ دیتی ہے۔
یہ بات سچ ہے یا نہیں میں اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کرتی ہوں۔
وہ ستمبر کے اوائل دن تھے جب میں نے یہ ٹریک کرنے کا فیصلہ کیا ساتھ ساتھ میرے پاس وقت کی شدید قلت تھی مگر پھر بھی اوکھلی میں سر دینے کی مجھے ہمیشہ سے ہی عادت تھی تو سوچا کیوں نہ ایک رسک اور لے لیا جاۓ، یا تو یہ ایک سبق ہوگا یا پھر یادگار۔ تو جناب میرے پاس فقط دو دن تھے اس ٹریک کو مکمل کرنے کے لیے اور مری سے کیل کی طرف جاتے ہوئے ہی مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ میں فوڈ پوائیزن کا شکار ہو چکی ہوں۔ سارا دن میں کچھ بھی نہ کھا سکی، رات کے کسی پہر کیل پہنچی اور وہاں بھی بھوکا ہی سونا پڑا۔
علی الصبح طبیعت کچھ بہتر محسوس ہوئی تو جیپ میں بیٹھ کر شونٹر روانہ ہوگئی، حوض پر پہنچ کر ناشتہ کیا اور ٹریک کے لیے روانہ ہوگئی۔۔۔ وہ انتہائی گرم ترین دن تھا جسم کو پانی کی شدید کمی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ میں ابھی نالے کی پہلی چڑھائی تک ہی پہنچی تھی کہ مجھے قے ہوگئی، مگر پھر بھی چلنے کی ہمت موجود تھی۔ جنگل میں پہنچ کر کچھ دیر آرام کیا نماز ظہر ادا کی اور ڈیک ون کی طرف چل پڑی۔ یہ دوسرا دن تھا کہ میں نے کچھ نہ کھایا تھا جو کھایا وہ قے میں نکل چکا تھا، مجھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد پانی کی کمی محسوس ہو رہی تھی اس لیے پانی پیتی جا رہی تھی۔ مگر پھر بھی میرا حوصلہ نہیں ٹوٹا تھا اور میں عصر کے وقت بآسانی ڈیک ون تک پہنچ گئی تھی۔۔۔ مگر ڈیک ون تک پہنچنا کوئی بڑی کامیابی نہیں تھی، مجھے اگلے دن ہر حال میں جھیل سے ہو کر واپس حوض تک آنا تھا۔
اندھیرا ہوتے ہی مجھے جسم میں تپش کا احساس ہوا۔ ساری رات بخار میں کروٹ بدلتے گزاری۔ صبح نماز فجر کے بعد میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ مجھے جهیل کی طرف جانا چاہیے یا واپس پلٹ جانا چاہیے؟۔۔۔ کیوں کہ ڈیک ون پر خیمے سمٹ رہے تھے اور واپسی پر یہاں کچھ نہ ہوتا۔۔۔ مگر وہی اوکھلی میں سر دینے کی عادت جو تھی، تو واپس کیسے پلٹ جاتی اس لیے جھیل کی طرف روانہ ہوگئی۔
ایک بات کا ذکر میں کرنا بھول گئی کہ میں کسی ٹیم کے ہمراہ نہیں تھی یہ میرا سولو ٹرپ تھا، اس کے ساتھ ہی وہاں کوئی اور سیاح بھی موجود نہیں تھا۔۔۔ ڈیک ٹو کے ٹریک پر میرے ساتھ تین مقامی لوگ اور سفر کر رہے تھے اس کے سوا اب وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ ڈیک ٹو کی چڑھائی پر بھی شدید گرمی تھی جسم میں خوراک اور پانی کی کمی بھی تھی مگر پھر بھی میں آبشار تک آسانی سے پہنچ گئی تھی، آگے وہی چڑھائ تھی جس کو مشکل ترین تصور کیا جاتا ہے۔۔۔ اس چڑھائ پر چڑھنے سے پہلے میں آبشار کے قریب کچھ دیر سستانے بیٹھی، پانی کی چھینٹیں مجھے بہت سکون بخش رہی تھی اور کچھ دیر میں ہی میری آنکھ لگ گئی۔ آدھے گھنٹے بعد میری آنکھ کھلی تو چڑھائی چڑھنے کی ہمت جمع کرنے لگی۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ میں نے وہ چڑھائی آسانی سے پار کرلی، مجھے واقعی اس چڑھائی میں دقت محسوس ہوئی مگر اس کے عوامل موجود تھے۔ اسکی دو بڑی وجوہات شدید گرمی اور طبیعت کی ناسازی تھی۔
آبشار سے جھیل تک کا سفر میں نے قریباً دو گھنٹے میں مکمل کیا۔ جھیل پر پہنچ کر وقت دیکھا ایک بج رہا تھا۔ میں ایک بڑے پتھر کے سہارے نیم دراز ہوگئی۔۔۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس خاموشی اور ویرانی میں بھی میری آنکھ لگ گئی۔ مقامی لوگ مجھ سے کافی فاصلے پر تھے اس لیے مجھے کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
راستہ بھلے ہی تکلیف دہ رہا پر جھیل پر سستانے میں بڑا ہی سکون ملا، جب آنکھ کھلی تو طبیعت کافی حشاش بشاش محسوس ہوئی۔ وقت دیکھا تو تین بج رہے تھے فوری طور پر واپسی کی راہ لینا مناسب سمجھا۔ مگر حالات کیسے ہی ہوں کچھ کیڑے انسان کو ہمیشہ کاٹتے ہی رہتے ہیں۔ پتا نہیں اس وقت دماغ میں کونسا کیڑا تھا کہ سوچا ایک ایڈونچر اور کیا جاۓ، یہ جو مشکل سی چڑھائی ہے اس پر بھاگا جاۓ تو بھاگنا ایسے شروع کیا جیسے پیچھے کتا لگا ہو، مگر قسمت میں ایک مصیبت اور لکھی تھی کہ بھاگتے ہوئے پاؤں اس زور سے مڑا اور گھٹنے میں شدید قسم کا جھٹکا لگا اور اگلے ہی پل چلنا بھی دشوار ہو گیا۔۔۔ اب جو مشکل چڑھائی تھی وہ مشکل اترائ میں تبدیل ہوگئی تھی مگر واپس جانا تو لازم تھا لنگڑا لنگڑا کر آبشار تک پہنچ ہی گئی مگر پکچر ابھی باقی تھی کیوں کہ مجھے حوض تک پہنچنا تھا اور مغرب کا وقت ڈیک ون پر پہنچنے سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔۔۔ ڈیک ون پر نہ بندہ تھا نہ ہی کوئی جن بھوت۔۔۔ ڈیک ون سے فی الفور نکلنا تھا، ٹریک پر جو دو لوگ اور تھے وہ راستہ تلاش کرنے آگے نکل چکے تھے اب میں اکیلی، اندھیری رات نہ تارہ نہ چاند۔۔۔ خیر چاند تو موجود تھا اور ان حالات میں بھی محبوب سا لگ رہا تھا۔
آہستہ آہستہ خود کو گھسیٹتے ہوئے ساتھ ساتھ آیت الکرسی پڑھتے چلتی رہی۔ سفر بڑا طویل لگ رہا تھا رات کے دوسرے پہر حوض کے خیموں کی روشنی دکھائی دینے لگی تو کچھ ہمت بندھی ہی تھی کہ جانے کہاں سے کتوں کے بھونکنے کی آواز آئ اور ایک کتا بالکل میرے پیچھے آن کھڑا ہوا۔ اب ٹوٹے ہوئے گھٹنے کے ساتھ میں بھاگنے سے قاصر تھی اور نہ ہی کسی کو مدد کے لیے پکار سکتی تھی، کتا ایک قدم اور آگے بڑھ کر بھونکنے لگا میں بھی کتے کی طرف ایک قدم بڑھی اور بولی۔
” لے کاٹ لے کتے کے بچے تیری کمی رہ گئی ہے بس”
اچانک کتا خاموش ہو گیا اور مجھے ایک بات سمجھ آئ کہ یہ چار ٹانگوں والے کتے کچھ دو ٹانگوں والے کتوں سے بہتر ہوتے ہیں۔۔۔
کتے کے خاموش ہوتے ہی میں آگے بڑھ گئی ٹانگ کا درد اب بہت بڑھ گیا تھا۔ پہلی چڑھائی پر بنے گھروں سے لے کر حوض تک کی کا راستہ میں نے دو گھنٹے میں طے کیا اور حوض پہنچتے ہی ایک خیمے کے اندر ڈھیر ہوگئی۔ اب آپ لوگوں کے خیال میں سفر ختم ہوا؟ مگر نہیں پکچر ابھی بھی باقی ہے۔۔۔۔
صبح بھیڑوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں سے آنکھ کھلی، میں خیمے سے باہر آئ تو ایک مقامی عورت میری طرف بڑھی اور پوچھا” کیہڑے گراں تو آئ اے” ( کونسے گاؤں سے آئ ہو؟” )
کیل۔۔۔ میں جواب دے کر واپس خیمے میں چلی گئی۔۔۔ حوض پر ہی ناشتہ کرنے کے بعد کسی جیپ کا انتظار کرنے لگی کیوں کہ دو دن مکمل ہو چکے تھے اور آج میں نے ہر حال میں کیل پہنچنا تھا کیوں کہ مزید دو دن بعد مظفر آباد یونیورسٹی میں میری کتاب کا سیمینار تھا۔۔۔
دو گھنٹے حوض پر جیپ کا انتظار کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ آج کوئی بھی جیپ وہاں سے کیل کے لیے نہیں جاۓ گی، یہ سن کر میری پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا اسی اثنا وہاں ایک مقامی جوڑا بھی جیپ کے انتظار میں آن کھڑا ہوا انہوں نے صلاح دی کے حوض سے دو گھنٹے کی مسافت پر بیلا گاؤں ہے وہاں سے جیپ مل جاۓ گی۔۔۔ میں نے پیدل ہی اس جوڑے کے ہمراہ جانے کا فیصلہ کیا۔۔۔ اڑھائ گھنٹے پیدل چلنے کے بعد بیلا گاؤں کے ایک ڈھابے پر پرامید دل کے ساتھ پکوڑے کھا رہی تھی کہ وہاں سے معلوم ہوا آج کوئی گاڑی کیل تک نہیں جاۓ گی۔۔۔ مقامی جوڑا تو یہ بات سنتے ہی بیلا گاؤں سے پیدل ہی نکل کھڑا ہوا۔۔۔ اور میں کبھی پیچھے دیکھوں تو کبھی آگے جانے والے جوڑے کو۔۔۔
آخر کار مقامی جوڑے کو صدا دی،
آۓ ہو ابھی بیٹھو تو سہی
جانے کی باتیں جانے دو۔۔۔
پھر کیا ہوا آپ سب سوچ لیں۔۔۔ میں تو بس اتنا ہی کہوں گی کہ جب اڑنگ کیل کی چڑھائ چڑھ رہی تھی تو مغرب کی اذان کانوں میں گونجی تھی، مگر پھر بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔۔۔
ٹھیک دو دن بعد دھوپ میں ہوئے کالے منہہ کے ساتھ میں نیلم ویو ہوٹل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھی ان کو اپنے چٹھہ کٹھہ سفر کی ڈینگیں مار رہی تھی مگر کسی کو اپنے کارنامے نہیں بتاۓ میں نے، آج پہلی بار بتا رہی ہوں تاکہ دوسروں کو بھی حوصلہ ملے۔۔۔
خیر اب تک تو حوصلہ توڑنے والی بات کی ہے میں نے مگر ابھی بھی پکچر باقی ہے دوستوں۔۔۔
گزرشتہ سال میں اگست کے مہینے میں چٹھہ کٹھہ ٹریک پر دوبارہ گئی تھی مگر فقط تین دن پہلے میں گریز کے سفر سے لوٹی تھی جہاں پہلے ہی دن ٹریکنگ بوٹس نے میرے دونوں پیروں کے انگوٹھوں کے ناخن خراب کر دیے تھے اور سات دن کا طویل سفر مجھے نیم مردہ حالت زدہ چپل کے ساتھ طے کرنا پڑا۔۔۔ لیکن بہرحال میرے شوہر یامین افضال اور مقامی لوگوں نے میرا بھرپور ساتھ دیا۔۔۔
گریز کے سفر سے واپس آکر تیسرے ہی دن میں چٹھہ کٹھہ کے سفر کے لیے روانہ ہوگئی تھی اور اس بار یہ سفر مجھے ایک بچوں جیسا آسان سا سفر لگا۔۔۔ اگر میں اپنی رفتار کو گھنٹوں میں منتقل کروں تو حوض سے لے کر جھیل تک مجھے ساڑھے چار یا بہت زیادہ پانچ گھنٹے لگتے۔۔۔
کچھ عرصہ قبل میں نے ٹرملین جھیل کے تجزیے میں اسکا موازنہ چٹھہ کٹھہ سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرملین جھیل کا ٹریک چٹھہ کٹھہ سے تین گنا مشکل ہے، تب ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کیسے موازنہ کر سکتی ہیں کہ تین گنا مشکل ہے؟
ایک اور صاحب نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک ہی دن میں ٹرملین کا ٹریک مکمل کر سکتے ہیں۔۔۔
اس وقت میں نے ان دو صاحبان کو تھوڑا سخت جواب دیا مگر میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ خدارا سوشل میڈیا پر اپنے الفاظ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا کریں۔اگر اللّه نے آپ کو دوسروں سے زیادہ ہمت طاقت اور حوصلہ دیا ہے تو بڑا بول کبھی نہ بولیں بلکہ دوسروں کے معاون و مدد گار بنیں۔۔۔ میں نے اب تک سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں پہلی سیاح ہوں جو چٹھہ کٹھہ جھیل سے اکیلی پیدل اڑنگ کیل آئ کیوں کہ اس میں میری اپنی غلطی شامل تھی دوسرا یہ کوئی کارنامہ نہیں بلکہ اتفاق تھا ہاں جہاں تک گریز کی جھیلوں کا تعلق ہے تو وہ ایک بڑا کارنامہ ہیں، اور جہاں تک دو جھیلوں کا موازنہ کرنے کی بات رہی تو میں اپنی رفتار کے مطابق کسی ٹریک کے بارے میں نہیں بتاتی بلکہ یہ سوچتی ہوں کہ ایک اوسط درجے کا انسان اس ٹریک کو مکمل کرنے میں کتنا وقت لے سکتا ہے۔۔۔
اس پوری روداد کے بعد میں چٹھہ کٹھہ کے اصل مدعے پر آتی ہوں۔ یہ ٹریک ہرگز کوئی مشکل ٹریک نہیں ہے ہاں یہ طویل ضرور ہے۔۔۔ اس ٹریک میں کوئی بھی ٹیکنکل حصہ موجود نہیں ہے نہ ہی جان جانے کا خطرہ ہے اس ٹریک میں ڈیک ون پر ہلکی چڑھائ جب کہ ڈیک ٹو پر کچھ افقی چڑھائی ہے جس کو طے کرنے میں کم از کم ایک زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے درکار ہوں گے باقی راستہ دو میدانوں اور جنگل پر مشتمل ہے جسے طے کرنا نہایت آسان ہے جب کہ ٹرملین جھیل کا کم ازکم تین اور زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے کا راستہ انتہائی دشوار ہے جس پر ذرا سی غلطی آپ کی جان بھی لے سکتی ہے اسی لیے میں نے اس ٹریک کو چٹھہ کٹھہ سے تین گنا مشکل کہا اور گریز کی باقی جھیلوں کا چٹھہ کٹھہ سے کوئی موازنہ ہے ہی نہیں کیوں کہ دوسری جهیلوں پر کوئی ٹریک موجود ہی نہیں ہے۔۔۔
چٹھہ کٹھہ کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ حوض اور ڈیک ون پر ظہیر بھائی کا ٹینٹ ویلج موجود ہے اور ظہیر بھائی انتہائی وسیع القلب اور ملنثار انسان ہیں، آپ کو ٹریک کے حوالے سے کوئی بھی دقت ہو آپ ان سے بلاجھجھک رابطہ کر سکتے ہیں۔۔۔
اب تحریر کو مزید طول نہ دیتے ہوئے اختتام کی طرف آتی ہوں کہ کوئی بھی ٹریک بیک وقت آسان اور مشکل ہوتا ہے اور اسکا انحصار کچھ عوامل پر ہوتا ہے جو ذیل ہیں۔۔۔
1) ٹریک کے آسان اور مشکل ہونے کا انحصار ٹریک پر نہیں بلکہ آپ کی صحت، ہمت، حوصلے اور جزبے پر ہوتا ہے۔۔۔
2) موسمی اور قدرتی حالات کسی آسان ٹریک کو بھی مشکل بنا سکتے ہیں اس لیے دونوں طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے خود کو ہمہ وقت تیار رکھنا چاہیے۔۔۔
3) ٹریک پر میری طرح منہہ اٹھا کر نہیں نکلنا چاہیے بلکہ اپنے ساتھ ضروری سامان اور سہوليات کا انتظام کر کے نکلنا چاہیے۔۔۔
4) کسی بھی انجان اور طویل سفر پر بہت زیادہ لوگ اور تنہا سفر دونوں ہی سفر کو مشکل بنا سکتے ہیں اسلیے کم لوگوں کے ساتھ اچھا سفر کریں اور کسی ایک ایسے شخص کو ضرور ساتھ رکھیں جو راستے کی مکمل معلومات رکھتا ہو۔۔۔
5) آخری بہت ضروری بات کہ میرے جیسے ٹریکر لکھاریوں سے متاثر ہوکر ہرگز کسی جگہ کا سفر نہ کریں کیوں کہ ہم جیسے لوگ یہی سوچتے ہیں کہ
” جب اوکھلی میں سر دے دیا تو موسل سے کیا ڈرنا؟”
مطلب جب کوٹنے والے پیالے میں سر ڈال دیا ہے تو دستے سے کیا ڈرنا سر تو کٹے گا اب 🤭۔۔۔
یقیناً اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کہاں کب اور کیوں جانا چاہیے۔۔۔ میں تو کسی اگلے ٹریک پر بھی کوئی کارنامہ ہی کروں گی انشاء اللّه۔۔۔۔
کیا ہم ایلیا کے مداح ہیں؟، نہیں تو۔۔۔
یہ غم کیا دل کی عادت ہے؟ نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ہے؟ نہیں تو
کسی کے بِن، کسی کی یاد کے بِن
جیئے جانے کی ہمت ہے؟ نہیں تو
ہے وہ اک خوابِ بے تعبیر، اس کو
بھلا دینے کی نیت ہے؟ نہیں تو
کسی صورت بھی دل لگتا نہیں؟ ہاں
تو کچھ دن سے یہ حالت ہے؟ نہیں تو
تیرے اس حال پر ہے سب کو حیرت
تجھے بھی اس پہ حیرت ہے؟ نہیں تو
ہم آہنگی نہیں دنیا سے تیری
تجھے اس پر ندامت ہے؟ نہیں تو
ہُوا جو کچھ یہ ہی مقسوم تھا کیا
یہ ہی ساری حکایت ہے؟ نہیں تو
اذیت ناک امیدوں سے تجھ کو
اماں پانے کی حسرت ہے؟ نہیں تو
تُو رہتا ہے خیال و خواب میں گم
تو اِس کی وجہ فرصت ہے؟ نہیں تو
سبب جو اِس جدائی کا بنا ہے
وہ مجھ سے خوبصورت ہے؟ نہیں تو