چین سا مشینوں پر پابندی، کیا اب وادی نیلم میں جنگلات کا کٹاو رک جائے گا؟

خبر ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر نےوادی نیلم میں جنگلات کا کٹاو روکنے سے متعلق عوامی شکایات پر ایکشن لیتے ہوئے چین سا مشینوں پر پابندی عائد کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے-

سوال یہ ہے کہ چین سا پہلے کس اجازت نامے اور لائسنس کے تحت چلتا ہے؟ اور کیا ایک چین سا مشین پر پابندی لگ جانے سے جنگلات کا کٹاو مکمل طور پر رک جائے گا؟

گذشتہ پانچ چھ سالوں کے دوران نیلم ویلی کے جنگلات کو محکمہ جنگلات کہ سرپرستی میں جس بے دردی سے کاٹا گیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی-

محکمہ جنگلات کے افسران کی اکثریت لکڑی کے غیر قانون کاروبار میں شراکت دار ہے- عوام اور سول سوسائٹی لکڑی کی غیر قانونی ترسیل روکنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں تو محکمہ جنگلات کے افسران اس غیر قانونی لکڑی کو قانونی ثابت کرنے میں جت جاتے ہیں-

کئی افسران کے خلاف تحقیقات سالوں سے رکی ہی اور اثر رسوخ استعمال کر کے اپنے خلاف محکمانہ یا عدالتی کارروائی کو رکوا لیتے ہیں-

ایک رینج آفیسر کے کروڑوں روپے کے گھپلوں کے واضح ثبوت ہونے کے باوجود کارروائی اس لیے نہیں ہو سکی کے اس میں سابق اور موجودہ وزیر کی حصہ داری ہے-

غیر قانونی لکڑی سے بھری گاڑیاں روات اور راولپنڈی سے واپس مظفرآباد پہنچائی گئی مگر مجال کہ کسی ذمہ دار کو سزا دی جا سکے-

درخت کاٹ کر کراچی تک پہنچانے والے اکثر وزیراعظم اور وزیر جنگلات کے دائیں بائیں دیکھے جاتے ہیں- ان کے چین سا پر پابندی تو درکنار انکھ اٹھا کر دیکھنے پر با وردی اور بے وردی، تنخواہ دار اور بلا تنخواہ سپاہی سبھی کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں-

ابھی چند روز قبل ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں محکمہ جنگلات کا ایک اہلکار جنگل جانے والے تحقیقاتی کمیشن کو لاشیں بچھانے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور اور مقامی نوجوان کا الزام ہے کہ فوجی اہلکاروں نے ان پر بندوقیں تانیں-

یہ سب خفیہ طور پر نہیں بلکہ دھڑلے سے ہو رہا ہے بلکہ حکومتی سرپرستی میں ہو رہا ہے- تو پھر ایک چھوٹی سی چین سا مشین پر پابندی سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

چین سا مشین میں پٹرول ڈلتا ہے، اس پر بھی پابندی لگا دی جائے- کاٹی گئی لکڑی کی ترسیل ٹرکوں پر ہوتی ہے، ان پر بھی پابندی لگائی جائے-

ہاں البتہ ان فیکٹری پر پابندی لگانے کی ضرورت نہیں جن میں 90 فیصد سے زائد لکڑی غیر قانونی طور پر تیار اور ترسیل ہوتی ہے-

ان افسران پر پابندی کی ضرورت نہیں جن کی اس کاروبار میں شراکت داری ہے اور جن کے خلاف کروڑوں روپے کی کرپشن کی شکایات اور ثبوت موجود ہیں-

اور خاص طور پر اس لکڑی پر تو نظر ڈالنے کی قطعاً ضرورت نہیں جو سرکاری کی کالی پیلی گاڑیوں میں یہاں سے وہاں منتقل ہوتی ہے-

جنگل قومی خزانہ ہے اور قومی خزانہ باپ کی جاگیر ہوتا ہے- سرکاری افسران اسے شیر مادر سمجھ کر بھی استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ اس ملک میں ان سے پوچھ گچھ کو کوئی قانون ہے نہ احتساب کا عمل-

اپنا تبصرہ بھیجیں