سعودیہ نے خاشقجی کے قتل کا اعتراف کیا، الزام ایجنسیوں پر لگانے سے مطمئن نہیں: اردوان

استنبول: ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ترکی کے پاس جمال خاشقجی کے منصوبہ بندی کے تحت قتل کے شواہد ہیں اور قتل کا الزام انٹیلی جنسی ایجنسیوں کے لوگوں پر لگانے سے ہم مطمئن نہیں ہیں۔ترک پارلیمنٹ میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردوان نے کہا کہ جمال خاشقجی کا قتل منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور قتل کی منصوبہ بندی 29 ستمبر کو کی گئی، دو سعودی ٹیمیں خاشقجی کے قتل میں ملوث تھیں، ترکی واضح کرچکا ہے کہ وہ اس قتل پر خاموش نہیں رہے گا۔انہوں نے کہا کہ سعودیوں کا دعویٰ ہے کہ خاشقجی لڑائی کے دوران مارا گیا، قتل کے 17 دن بعد سعودی عرب نے قتل کا اعتراف کیا، قتل ہماری سرزمین پر ہوا اس لیے تحقیقات کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے، امریکی صدر سے اس معاملے پر تفصیل سے بات ہوئی ہے جب کہ سعودی بادشاہ سے گفتگو کے بعد مشترکا تحقیقاتی ٹیم بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ سعودی جنرلز اور 9 افراد پر مشتمل سعودی ٹیم سعودی عرب پہنچی تھی، خاشقجی کو 2 اکتوبر کو سعودی قونصلیٹ میں جانے کے بعد دوبارہ نہیں دیکھا گیا، سعودی حکام نے پہلے تردید کی کہ خاشقجی قونصلیٹ آنے کے بعد لاپتا ہوا، سعودی قونصل خانے سے کیمرے ہٹا دیا گئے، کیمرے کی ویڈیو سے پتا چلتا ہےکہ جمال خاشقجی قونصلیٹ سے واپس نہیں آئے، ایک سعودی اہلکار جمال خاشقجی کا روپ دھار کر قونصل خانے سے باہر آیا۔رجب طیب اردوان نے مزید کہا کہ ہماری پولیس اور انٹیلی جنسی ایجنسی اس معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے، سعودی قونصلیٹ ترک سرزمین پر ہے اور جنیوا کنونشن کسی کو سفارتی استثنیٰ فراہم نہیں کرتا، معاملے اب آگے بڑھ گیا ہے، خاشقجی کا قتل بین الاقوامی معاملہ ہے اس کا بین الاقوامی سطح پر قتل کا نوٹس لیا گیا، مشترکہ ورکنگ گروپ اس معاملے پر بات کررہا ہے، ، سفارتی استثنیٰ کے باوجود قتل کی تحقیقات ہماری ذمہ داری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں