جاپان میں ناکارہ بیس بال بیٹ سے بن گئے چاپ اسٹکس

‘چاپ اسٹکس’ہوتی کیا ہیں، چائینز کھانے کے شوقین افراد جانتے ہی ہوں گے اور جو لوگ ‘بیس بال’ دیکھتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ بیس بال کا بیٹ دکھتا کیسا ہے۔چاپ اسٹکس، مشرقی ایشیائی ممالک میں کھانے کے لیے چمچ کی جگہ استعمال ہوتی ہیں لیکن ایک لمحے کے لیے بھاری بھر کم بیس بال بیٹ کو نازک چاپ اسٹکس میں تبدیل ہونے کا تصور کیجیے۔جاپان میں جب بیس بال بیٹ گیند کو ہٹ لگانے کے قابل نہیں رہتے تو پھر ان سے چاپ اسٹکس بنا لی جاتی ہیں۔بیس بال بیٹ کے ساتھ ایسا اس کھیل کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے لیکن اس سے بھی بڑی وجہ جاپانی درخت ‘آوڈامو’ کو بچانے اور اسے دوبارہ لگانے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔آوڈامو کی لکڑی، مضبوط، ہلکی اور لچکدار ہونے کے ساتھ بکھرنے سے محفوظ رہتی ہے اور انھی خصوصیات کی وجہ سے اس درخت کی لکڑی کو پروفیشنل بیٹ بنانے کے لیے مناسب سمجھا جاتا تھا تاہم بعد میں اس لکڑی کے نایاب ہونے کی وجہ سے بیٹ بنانا ترک کر دیا گیا تھا۔ان درختوں کے نایاب ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ‘آوڈامو’ درخت جتنی تعداد میں کاٹے گئے اتنی تعداد میں واپس نہیں لگائے گئے۔اب زیادہ تر بیس بال بیٹ شہتوت اور وائٹ ایش کے درختوں سے تیار کیے جاتے ہیں۔’ہیوزئی من’ بیس بال بیٹ سے چاپ اسٹک بنانے کے خیال کی بانی کمپنی ہے۔کمپنی کے مطابق چاپ اسٹکس سے حاصل ہونے والی آمدن آواڈامو درختوں کی افزائش کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔کھیل کے ہر سیزن کے بعد تقریباً 10 ہزار ناکارہ بیس بال بیٹ کمپنی میں جمع ہوتے ہیں۔ چاپ اسٹکس پر ان ٹیموں کے لوگو بنے ہوئے ہوتے ہیں جن کے زیر استعمال یہ بیٹ ہوتے تھے۔بیٹ کا تمام حصہ نئی چیزیں بنانے کے کام آتا ہے، اس کے موٹے حصے سے چاپ اسٹکس بنائی جاتی ہیں جب کہ چپٹے حصے سے شو ہارن، چمچے کانٹوں کے ہینڈل بنانے کے کام آجاتا ہے اور بیٹ کے کیپ سے پانی پینے والے کپ بنا لیے جاتے ہیں۔پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر کرکٹ کھیلی جاتی ہے، اب آپ تصور کریں کہ اگر ہمارے ہاں بھی ناکارہ کرکٹ بیٹس کو قابل استعمال لایا جائے تو کتنی بڑی تعداد میں درخت کٹنے سے بچ سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں