میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں
خوبصورت اور جذبات میں گندھے لفظوں کے شاعر جون ایلیا کو بچھڑے 16 برس بیت گئے لیکن مداحوں پر جون کا سحر آج بھی طاری ہے اور ان کی بے خودی اور منفرد لہجہ بے شمار لوگوں کو یاد ہے۔
اقدار شکن، منفرد اور باغی شاعر جون ایلیا کا اصل نام سید جون اصغر تھا۔
وہ 14 دسمبر 1931ء کو بھارتی شہر امروہہ میں پیدا ہوئے اور 1957 میں پاکستان آنے کے بعد کراچی میں رہائش اختیار کی۔
اپنے انوکھے انداز تحریرکی وجہ سے شہرت رکھنے والے جون ایلیا کو نہ صرف عربی بلکہ انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی زبان میں بھی اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔
اک عجب آمد و شد ہے کہ نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ برپا کئی نسلوں کا سفر ہے مجھ میں
ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس کی وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پذیرائی نصیب ہوئی۔
فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعہ کربلا پر جون کا علم کسی انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔
1991 میں ساٹھ سال کی عمر میں ان کے پہلے مجموعے ’شاید‘ کی اشاعت ہوئی۔ دوسرا مجموعہ ’یعنی‘ ان کی وفات کے بعد 2003 میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ ’گمان‘ 2004 میں منظرِعام پر آیا جبکہ 2006 میں ’لیکن‘ اور 2008ء میں ’گویا‘ کی اشاعت کی گئی۔
جون ایک ادبی رسالے سے بطور مدیر بھی وابستہ رہے، جہاں ان کی ملاقات اردو کی مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے انہوں نے شادی کرلی، لیکن یہ شادی چل نہ سکی اور اس کا اختتام طلاق پر ہوا۔ تنہائی نے جون کو جسمانی طور پر کھوکھلا کر دیا مگر دل کی چوٹ نے ان کے فن کو اور نکھار دیا۔
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا؟
ان کا حلیہ، طرزِ زندگی اور زندگی سے لاابالی رویے بتاتے ہیں کہ وہ باغی بھی تھے اور اقدار شکن بھی لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس طرزِ زندگی کو اپنے فن کی شکل میں ایسے پیش کیا کہ شخص اور شاعر ایک ہوگئے۔
ان کا باغیانہ رویہ ہر جگہ نظر آتا ہے وہ اپنی شاعری میں ایسے سوال اٹھاتے ہیں جو شاید پہلے نہیں اٹھائے گئے۔