عالمی یوم خواتین ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد معاشرے میں خواتین کی اہمیت کو اجاگرکرنا اور انکے حقوق سے عوام کو آگاہ کرنا اور ان پر تشدد کو روکنا ہے اس مضمون میں ہم آئین پاکستان میں درج خواتین کے حقوق اور ان کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیں گے۔
پاکستان میں خواتین کی تعداد کل آبادی کا 52 فیصد ہے اور یہاں بیشتر خواتین کے حالات زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ تنگ ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے گھریلو ماحول مجموعی طور پر تناؤ کا شکار ہے۔ راہ چلتے عورتوں پر آوازیں کسنا، مذاق اڑانااور غیراخلاقی الفاظ کا استعمال کرنا، روز کا ہی معمول بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ تیزاب پھینک کر عورتوں کی شکلیں بگاڑ کر انہیں عمر بھر کیلئے معذور کر دیا جاتا ہے۔ 21صدی میں بھی دور جہالت کے پیروکار موجود ہیں۔
ہمارے ملک میں 1973 کے آئین میں عورتوں کے حقوق کیلئے قانون موجود ہے۔
پاکستانی آئین نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی ہے لیکن ان قوانین پرعمل نہ کرنے کی وجہ سے خواتین کو مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
پاکستان کے آئین اور پینل کوڈ کے مطابق تعلیم حاصل کرنا بچے کا آئینی اور بنیادی حق ہے۔ لیکن اس کے باوجود والدین بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔ پاکستان پینل کوڈ 1860 کے مطابق بغیر رضامندی اور زبردستی کی شادی غیر قانونی ہے۔ اور اس آئین کی خلاف ورزی کرنے والے کے شہری کو 3 سے 5 سال کی قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔
پاکستان کے آئین کے مطابق ہراسانی کی سزا 3 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔وہ تمام خواتین جو ان حالات سے گزرتی ہیں، وہ اپنے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے قانون سے انصاف حاصل کرے۔
دور حاضر کے وزیراعظم عمران خان نے بھی عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں عورتوں کے مسائل سننے اور انہیں اپنا حق دلانے کیلئے محتسب ادارہ برائے ہراسیت بنایا ہے۔
سال 2018 میں وزارت انسانی حقوق نے خواتین کو وراثت میں حقوق دینے کے حوالےسے آگاہی مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس مہم کا مقصد عوام کو خواتین کے حقوق کے بارے میں باشعور کرنا تھا تاکہ وہ خواتین کو وراثت میں ان کا حق دینے کے بارے میں آگاہ ہو سکیں۔ وزارت انسانی حقوق نے خواتین کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے کے لئے ایک ہیلپ لائن 1099 بھی قائم کیں۔ اس ہیلپ لائن کے ذریعے کوئی بھی خاتون اپنے حق کے لئے آواز اٹھاسکتی ہے یا شکایت کر سکتی ہے۔ حقوق نسواں کے لیے قانون تو موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو مسائل کا شکار ہے۔
خواتین کی گھریلو زندگی کے تحفظ کے لیے گھریلو تشدد ایکٹ 2021 قائم کیا گیا، اس ایکٹ کے مطابق خواتین، بچوں، نادار افراد اور گھر میں ساتھ رہنے والے دیگر افراد کے جسمانی، جذباتی، نفسیاتی ، جنسی اور معاشی تحفظ کے لیے قانون سازی کی گئی ہے، ایکٹ کے تحت عدالت درخواست وصول ہونے کے سات دن کے اندر کیس کی کاروائی شروع کرنے کی پابند ہے اور الزام ثابت ہونے کے بعد چھ ماہ سے تین سال تک قید بیس ہزار سے ایک لاکھ تک جرمانے کی سزا دی جائے گی۔
یوم خواتین مغربی ایجنڈا ہے یا نہیں ہمارا ایشو یہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں عورتوں کو حقوق دینے کے حوالےسے عملی اقدامات کئے جارہے ہیں۔
مریم قربان اسلام آباد میں نمل یونیورسٹی کی طلبہ ہیں۔ وہ رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان دنوں وہ کشمیر لنک کے ساتھ انٹرن رپورٹر کے طور پر منسلک ہیں۔