وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کارکچھ یوں کہ ہے کہ اگر اسمبلی سیشن میں نہ ہو تو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کیلئے آرٹیکل 54 کے تحت ایک چوتھائی ممبران اجلاس کیلئے رکوزیشن جمع کرواتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کم از کم 20 فیصد ممبران اسمبلی کے دستخطوں سے جمع ہوتی ہے۔ جمع ہونے کے تین سے سات دن کے اندر سیشن بلانا سپیکر پر لازم ہے۔ اوپن ووٹ پر سادہ اکثریت سے فیصلہ ہوتا ہے اس حساب سے تین سو بیالیس کے ایوان میں عدم اعتماد کی قرارداد پاس کرنے کیلئے 172 ووٹ درکار ہوں گے۔
اپوزیشن حکومت و اتحادی ممبران میں سے دس بارہ ووٹس مینج کر کے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کر سکتی ہے۔ یہ تحریک پیش کرنے کا وقت البتہ غلط ہے۔ تحریک کی ناکامی کی صورت میں پی ٹی آئی مزید مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو گی کہ اس موقف کے ساتھ کے اسے اکثریت کا اعتماد حاصل ہے۔ جبکہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں حکومت سیاسی شہید بنے گی۔ ایک نیا بیانیہ تشکیل پائے گا کہ ہمیں مدت نہیں پوری کرنے دی گئی۔ ہماری پالیسیوں کے نتائج کرونا کے بعد اب آنا شروع ہوئے تھے۔ یہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر کیا گیا ہے۔ عمران خان نے بین الاقوامی طاقتوں کو للکارا ہے اس لئے اس کے خلاف سازش رچی گئی وغیرہ، وغیرہ۔ یہ منجھن پی ٹی آئی خوب بیچے گی۔ غرضیکہ ہر دو صورتوں میں یہ اپوزیشن کی سیاست ستیاناس ہونے کا قوی امکان ہے۔
باقی ووٹ دینے سے کسی ممبر اسمبلی کو کوئی جماعت نہیں روک سکتی۔ البتہ جماعتی پالیسی کے تابع حکومتی یا اتحادی ممبران اسمبلی کی کاروائی میں حصہ ہی نہ لیں تو اپوزیشن کی تحریک کی ناکامی سو فیصد ہے۔