پاکستان ان دنوں جس طرح کے داخلی سیاسی مسائل اور بحرانوں سے گزررہاہے، ان کے پس منظر میں اسلامی وزراء خارجہ کانفرنس کا اسلام آباد میں انعقاد ہوجانا ہی حکومت پاکستان کی ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ کانفرنس میں تقریباً 32 وزراء خارجہ اور 700 سے زائد مندوبین شریک ہوئے۔صرف تین ماہ میں دوسری مرتبہ او آئی سی وزراء خارجہ کانفرنس کے انعقاد کا اعزاز پاکستان کو حاصل ہوا ۔ یہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ اس کانفرنس کے بعد پاکستان اسلامی دنیا میں ایک لیڈر بن کر ابھرا ہے اور اس کی سفارتی تنہائی کی باتیں ہوا میں تحلیل ہوگئی ہیں۔
دو روزہ کانفرنس سے کسی بڑے معجزے کی توقع نہ تھی لیکن اس کے باوجود اوآئی سی وزراء خارجہ کانفرنس نے تنازعہ کشمیر پر ایک جامع اعلامیہ جاری کیا۔ پاکستان اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق اعلامیہ میں پہلی بار مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں زیر بحث لایاگیا۔اگرچہ ماضی میں بھی او آئی سی کشمیر کے حوالے سے اپنی قراردادوں میں ٹھوس موقف اپناتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ وہ تمام نکات اس اعلامیہ کا حصہ تھے، جو کشمیری لیڈرشپ کے نزدیک اہمیت کے حامل ہیں۔مثال کے طور پر:
۱۔ اعلامیہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کی حمایت کا اظہار کیا گیا۔۲۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی دوٹوک انداز میں مذمت کی گئی۔۳۔ او آئی سی نے پانچ اگست 2019 کے یک طرفہ بھارتی اقدامات کو بھی مسترد کیا، جن کا مقصد مقبوضہ علاقے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنا اور کشمیریوں کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول میں رکاوٹ ڈالنا تھا۔۴۔ او آئی سی نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ 5 اگست 2019 کو یا اس کے بعد اٹھائے گئے تمام غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لے۔۵۔ او آئی سی نے اپنے اعلامیہ میں بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ او آئی سی کے خصوصی نمائندے برائے جموں و کشمیر اور او آئی سی فیکٹ فائنڈنگ مشن کو انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں غیر جانبدارانہ جائزہ لینے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دے۔۶۔اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے، بین الاقوامی میڈیا اور آزاد مبصرین کوبھی مقبوضہ جموں و کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دے۔
مشترکہ اعلامیہ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ حکومت پاکستان نے او آئی سی کے جدہ میں قائم سیکرٹریٹ کے اشتراک سے کافی محنت اور سفارتی کوششوں کے بعد اس قدر جامع اعلامیہ جاری کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ جو لب ولہجہ اور زبان اس اعلامیہ میں استعمال کی گئی، اسے اگلی او آئی سی کانفرنسوں میں بھی برقراررکھنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اگر اوآئی سی سربراہ کانفرنس بھی اسی طرح کا دوٹوک موقف اختیار کرلے تو بھارت پر قابل ذکر سفارتی دباؤڈالاجاسکتاہے۔
بھارتی سرکار اور میڈیا کی طرف سے مسلسل اوآئی سی کانفرنس کے حوالے سے اعتراضات کیے جاتے رہے۔مختصراً تین اعتراضات سامنے آئے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے ناراضی کا اظہار کیا کہ صدر آزادکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چودھری، حریت کانفرنس کے رہنماؤں جناب غلام محمد صفی اور سیّد فیض نقشبندی کو کیوں اوآئی سی نے کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ دوسرا اعتراض چین کے وزیرخارجہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل پر زوردینے کا تھا۔ تیسرا اعتراض اعلامیہ میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اٹھائے گئے نکات پر تھا۔
چین کے وزیرخارجہ نے اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فورم پر کشمیر پر ظاہر کیے جانے والے جذبات اور احساسات کو شیئر کرتے ہیں۔ چین کے وزیرخارجہ کی اوآئی سی میں موجوگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دوبئی میں محض دو برس قبل ہونے والی وزراء خارجہ کانفرنس میںبھارت کی اس وقت کی وزیرخارجہ ششما سوراج کو مدعو کیا گیا تھا ۔ پاکستان نے چین کے وزیرخارجہ کو مدعو کرکے ایک جوابی چال چلی ہے۔چونکہ کئی ایک خلیجی ریاستیں بھارت کی اوآئی سی میں نمائندگی کی راہ ہموار کرنے پر لگی ہوئی ہیں لہٰذا پاکستان نے جوابی طور پر چین کو پلیٹ فارم فراہم کرادیا۔
چین کے مسلم دنیا کے ساتھ روابطہ استوار کرانے میں پاکستان میں پہلے بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور اب اسے او آئی سی جیسے بڑے فورم پر چین کی موجودگی یقینا بیجنگ کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ چین کو بھی احساس ہوگا کہ اسے سنگیانک کے مسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اور تحفظات کے ازالے کے لیے ٹھوس کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط بنیادوں پر استوارکیے جاسکیں۔
افسوس! جن دنوں اسلام آباد میں اوآئی سی کے وزراء خارجہ کانفرنس ہورہی تھی، عین انہی دنوں متحدہ عرب امارات کا ایک کاروباری وفد سری نگر میں مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کررہاتھا۔ عرب امارات کا یہ کوئی سرکاری وفد نہیں تھا۔ اس کے باوجود پاکستان میں اس سرگرمی کو کافی ناپسندیدگی کے ساتھ دیکھاگیا۔ عرب امارات اگر پاکستان کے تحفظات اور جائز توقعات کا خیال نہیں رکھے گا تو پاکستان میں بھی اس کے ساتھ دوستی اور محبت کا دم بھرنے والے آہستہ آہستہ رخ پھیر لیں گے۔پاکستان کو بھی متحدہ عرب امارات کے اندر عوامی سطح پر اپنی لابی کو موثر اور فعال بنانے کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ علاوہ ازیں متحدہ عرب امارات کے کاروباری طبقے کو گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں بھی سرمایہ کاری کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔ جہاں سیاحت اور انفراسٹرکچر ڈولپمنٹ کے وسیع مواقع پائے جاتے ہیں، جن سے چینی کمپنیاں بھرپور فائدہ اٹھارہی ہیں۔
حرف آخر: اوآئی سی اگرچہ موثر عالمی آرگنائزیشن نہیں بن سکی لیکن اس کے باوجود اس کا دم غنیمت ہے کیونکہ یہ مسلمان ممالک کا واحد پلیٹ فارم ہے جہاں وہ تسلسل کے ساتھ اجتماعی مسائل زیر بحث لاتے ہیں اور مشترکہ نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں اس تنظیم نے اپنے دائرہ کار میں قابل ذکر وسعت لائی ہے۔ یہ دنیا کے دیگر اداروں کے اشتراک کے ساتھ اب کئی ایک علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی کام کررہی ہے۔ پاکستان کو اس کا دامن پکڑے رکھنا چاہیے اور اس تنظیم کی بہتری کے لیے مسلسل سوچ وبچار بھی کرنی چاہیے تاکہ اسے زیادہ فعال اور بااثرعالمی فورم بنایاجاسکے۔
ارشاد محمود راولاکوٹ/اسلام آباد میں مقیم معروف کشمیری صحافی اور کالم نگار ہیں۔ وہ پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے سیکرٹری اطلاعات اور جموں و کشمیر لبریشن سیل کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہیں۔