باعث افتخار انجینئر افتخار چودھری
میری رہائش گاہ 502کی اس کھڑکی سے جو نالہ کورنگ کی طرف کھلتی ہے وہاں سے رب ذوالجلال کی کبریائی کی آواز آ رہی ہے۔اللہ اکبر کی اس صدا نے مجھے مجبور کیا کہ نماز سے پہلے ایک کالم لکھ دوں ۔سوچتا ہوں کس آسانی کے ساتھ یہ آواز ہمارے کانوں میں گونجتی ہے۔اس پر ہم لبیک کہتے ہیں اور کچھ اسے سن کر ان سنی کر دیتے ہیں۔یہ اذان کوئی ایسے ہی نہیں ہمارے کانوں تک پہنچی۔کہتے ہیں نبی اکرم ۖ کی اس جہان سے پردہ پوشی کے بعد بلال رض مدینہ چھوڑ گئے اور ہوا یوں وہ مدت بعد مدینہ پہنچے اذان دی تو مدینے کی گلیوں میں لوگ روتے کرلاتے دوڑتے مسجد پہنچے۔دونوں جانب ہچکیاں تھیں اپنء محبوب کو ملنے وہ مدینہ آئے انہیں معلوم تھا وہ نہیں ہیں لیکن اذان دی تو نبی آخرالزمان کے چاہنے والے لپکے۔میں بعض اوقات سوچتا ہوں صنم خانہ ء ہند میں مسلمان کیسے ازان دیتے ہوں گے جہاں اکثریت ہے وہاں تو مانتا ہوں ازانیں دی جاتی ہوں گی مگر جہاں مسلمان تعداد میں تھوڑے تھے وہاں کیسے اذان دی جاتی ہو گی۔یہ سوال ان بزرگوں سے ضرور پوچھا جائے جو اسی کے پیٹے میں ہیں۔چودھری رحمت علی نے ١٩١٥ میں یہی کچھ کہا تھا کہ ہندوئوں سے الگ ہو جائو۔ان کی تحریریں پڑھیں آپ جان جائیں گے کہ عمران خان نے سچ کہا تھا کہ وہ آگے کا سوچتے تھے۔تیس کی دہائی میں انہوں نے اب ورنہ کبھی نہیں کا نعرہ لگایا یہ وہ دور تھا جب ہندو مسلم اتحاد کی بات کی جاتی تھی مسلمان سمجھتے تھے کہ ہندوئوں سے مل کر رہا جا سکتا ہے۔لیکن چودھری رحمت علی نے کیا خوب سوچا کہ نہیں ان سے مل کر نہیں رہا جا سکتا ۔آپ میں سے بے شمار لوگوں نے شہاب نامہ پڑھا ہو گا اگر کسی نے نہیں پڑھا تو قدرت اللہ شہاب کو ضرور پڑھئے گا۔انہوں نے انڈین سول سروس کا امتحان پاس کیا اور وہ اے سی لگا دئے گئے۔انہی کے زمانے میں بنگال کا قحط پڑا تھا ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ بھوک سے مر گئے تھے۔یہاں میں سوال اٹھانا چاہوں گا کہ انگریز جسے بہترین منتظم کہا جاتا ہے ان کی یہ بہترین نظامت کہاں گئی کہ وہ بنگالی مسلمانوں کی موت کا سبب بنے انہی دنوں طاعون کی وباء پھیلی۔گورا جو کچھ یہاں سے سمیتنا چاہتا تھا اس نے سمیٹا راحیل میرا بھتیجہ ہے اب وہ گوروں کے دیس کا باسی بن چکا ہے اس روز اس نے کمال کی بات کی کہنے لگا یہ ریل کا زبردست سسٹم بلوچستان اور شمالی مغربی صوبے کے آخر تک اس لئے نہیں بنایا کہ وہ یہاں کے لوگوں کو سہولت دینا چاہتا تھا اس نے فورٹ سنڈیمن ،حویلیاں سے شروع کر کے کراچی تک لائن اس لئے بچھائی کے وہ سونے کی چڑیا کو لوٹ کر لے جانا چاہتا تھا۔یہ ہسپتال یہ مشنری عبادت گاہیں مسیحیت کے پھیلائو اور اپنے مخصوص لوگوں کے علاج معالجے لئے بنائی گئیں۔دو چار فلاحی ہسپتال اپنے دین کے پھیلائو کے لئے بنائے گئے اور اچھوتوں کو مسیحی بنایا گیا۔بات سوچنے اور سمجھنے کی ہے۔مجھے گجرانوالہ یاد آ گیا حافظ آباد روڈ پر ہمارے گھر ہیں جو اب خالی ہو رہے ہیں یہاں پی بی ماڈل اسکول سے آگے چوہڑ دا باغ تھا وہاں پادری کی کوٹھی تھی۔اس چرچ میں سال میں دو ایک بار رونق لگتی تھی۔شہر بھر کے نو مسیحی یہاں اکٹھے ہوتے ۔یہ لوگ ہندو معاشرے کی تفریق سے تھکے ماندے لوگ تھے انہیں اسلام نے جگہ دی مگر اس سے زیادہ مسیحیت نے اپنے دروازے واء کئے۔
پادری کے پاس سو ٹاپ واکس ویگن تھی جب جدہ میں مجھے ساماکو میں سافٹ ٹاپ دیکھی تو مجھے پادری یاد آ گیا جس کی گاڑی گزرتی تو سب کہتے پادری لنگ گیا جئے اور پادری آ گیا جئے ہم نے کبھی اس سفید شخص سے بات نہیں کی۔چاچے عنائت شہزادے کی فوکسی ہارڈ ٹاپ تھی وہ نام کے شہزادے نہ تھے لوگ انہیں بھی کھڑے ہو کر دیکھا کرتے تھے۔اللہ جنت بخشے۔ان کی اولاد بھائی اعظم،معظم،گلزار،آصف ،،بابر اور ایک انسپکٹر ہوئے نام بھول رہا ہوں۔آج پتہ نہیں کیوں یاد آ گئے۔گاڑیوں کا ذکر چلا تو پرانے یار یاد آ گئے گلزار گلو،میرا بچپن کا دوست آج کل کسی جیل کا وڈا جیلر ہے ،ارشد بھٹی فاروق یہ بھی یاد آ گئے۔اللہ سب کو سلامت رکھے آمین۔
بات ازان سے شروع ہوئی اور ازان ہی کی جانب لے جانا چاہتا ہوں چاچے اسمعیل کی اذن بھی نہیں بھول سکتا۔اللہ کا نام ہچکولے دے کر لیتے جو ان کا اپنا خاص انداز تھا کوئی ٢٦ سال زان دینے والے چاچے کا دو سال پہلے انتقال ہو چکا ہے۔مدنی مسجد چاچے ابراہیم ارائیں نے بنائی تھی۔دیو بندی مکب فکر کے لوگوں نے یہ مسجد بنائی فاروق آج کل ازانیں دیتا ہے۔میرا پیارا دوست اللہ سلامت رکھے محلے کے از حد شرارتی لوگوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔۔ازانیں اور لوگ بھی دیتے ہیں لیکن سچ پوچھیں پہاڑی طرز کی ازانیں سننی ہوں تو علاقہ پہاڑ پی کے ٤١ ہری پور میں بھائیے اقبال کی ازان کا بھی جواب نہیں تھا۔پہاڑی طرز پر دی گئی اذان سنئے سر دھنئے لیکن اب وہ آواز اس جہاں سے رخصت ہو گئی ہے سچ پوچھئے اذان اگر اچھی نہ ہو تو اللہ پاک بھی راضی نہیں ہوتے۔
الریاض سعودی عرب کے بدو ئوں کا طریقہ اذان سب سے منفرد ہے۔کبھی گوگل کریں اور سنیں ۔اس انداز میں جدہ میںمقیم عدنان انصاری سے سنئے کمال کی کاپی کرتے ہیں۔میں مدینہ منورہ رہا وہاں کے موئذن تو ماشاء اللہ کمال کی اذان دیتے ہیں۔میرے تایا جان چودھری عبدالغفار بھی بہت اچھی اذان دیتے تھے نلہ کی مسجد سے ان کی اذان سنی جب وہ چھٹی جایا کرتے تھے بھائی امتیاز بھی نلہ اور باغبانپورے میں اذانیں دیتے رہے۔جدہ میں اذانیں دینے والے بہت ہیں لیکن جو مزہ مسجد شعبی میں آیا وہ کم ہی نصیب ہوا۔میں سعودی عرب کے کونے کونے میں گیا جو مزہ بریدہ کی بڑی مسجد میں آیا کم ہی نصیب ہوا یہ کمال کی مسجد ہے بیچ بازار کے اس مسجد میں جمعے کی نماز پڑھنے گیا تو عجیب منظر دیکھا کھجوروں کا سیزن تھا سال ٢٠٠٩ تھا دروازوں کے باہر بہترین کھجوروں کے کریٹ پڑے دکھائی دئے ہم جیسے اجنبی واپسی پر اٹھا لیتے۔میں جہاں بھی گیا علماء سے روابط رکھے ان سے مسئلہ کشمیر پر بات کرتا ۔مجھے دلی خوشی ہوئی دوسرے جمعے میں امام صاحب نے ذکر کیا اور فلطین کے سملامنوں کے ساتھ کشمیری مسلمانوں کے لیئے بھی دعا کی۔اس مسجد کے میناروں سے بلند ہونے والی اذان بھی بہت اچھی لگی۔حفر الباطن میں جہاں اے سی ڈیلکو کی ورکشاپ تھی یہاں کے امام بھی خوش الحان تھے۔یہاں کی یادیں کبھی لکھوں گا۔اس شہر میں ایک پاکستانی ہوٹل بھی تھا جس کے مینجر افتخار عباسی تھے بعد میں پتہ چلا عباسی صاحب اس دنیا میں نہیں رہے۔حفر الباطن کی مسجد کے نمازی بڑے پیارے لوگ تھے ان سے بڑی دوستی بنائی۔وہ اپنی تقریبات میں مجھے بلایا کرتے۔گورنر حفر الباطن کے سیکرٹری سے دوستی ہو گئی وہاں ایک ہندی سعودی تھے نام بھول رہا ہوں انہوں نے بہت اچھا ہسپتال بنایا یوا تھا شائد وزیر خان نام تھا۔حفر الباطن میں جمعے کی نمازیں مین سوق کی مسجد میں ادا کیں ۔یہاں اذان کا مزہ دوسری مسجدوں جیسا نہ تھا البتہ امام صاحب خوش الحان تھے ہالیڈ ے ان کے ساتھ ایک مسجد تھی کبھی کبھار وہاں نماز کے لئے جاتا۔میں نے اندازہ لگایا سعودی عرب کے طول و عرض میں ایک بات مشترک تھی کہ لوگ نماز کی پابندی کرتے۔جمعے والے دن اہتمام سے مسجد میں آتے اور چھوٹے بچوں کو تیار کر کے لاتے۔بدو تو اس سلسلے میں بہت آگے تھے۔بریدہ القصیم تو سعودی علماء کا گڑھ ہے وہاں کی دکانوں میں سگریٹ نہیں بیچے جاتے۔یہ لوگ مہمان نوازی میں بہت آگے ہیں اپنے آپ کو اصلی بدو کہتے ہیں۔۔زیادہ تر العنیزی خاندان سے ہیں جو کویت اور سعودی عرب کے علاوہ عراق میں پھیلا ہوا ہے۔یاروں کے یار لوگ ہیں میری کمپنی کا شئونالموئظفین کا سربراہ عوض العنیزی میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا۔اس نے شروع دنوں میں ایک لبنای کینیڈین کے کہنے پر مجھے بڑا تنگ کیا مگر جب میرے اس اے سی ڈیلکو ہیڈ کے ساتھ دو دو ہاتھ ہوئے تو وہ مان گیا کہ بندہ یہ بھی ترکھا ہے۔پھر میری دوستی ایسے ہو گئی کہ وہ مجھے افخار العنزی کہتا اور میں اسے عوض القوجر کہتا۔قوجر سے مراد گجر لیا جائے۔عربوں کی باتیں اپنے کالموں میں لکھوں تو آپ کو پتہ چلے کہ اللہ نے اسلام کا قلعہ پاکستان کو کیوں بنایا اور شاہ فیصل نے یہ لقب کیوں دیا۔عوض العنزی کو ایک بار مسجد نبویۖ میں لے گیا ریاض الجنة میں نفل پڑھوائے باہر آیا تو کہنے لگا مہدس انا اول مرة زورت الدینہ انجینئر میں نے پہلی بار مدینہ دیکھا ہے۔قبلہ والد صاحب کہا کرتے تھے عرب سے لوٹو تو عربوں کی اچھی باتیں بتایا کرو۔اچھی بات یہ ہے کہ عوض العنزی جیسا دوست مجھے زندگی میں کبھی نہیں ملا۔اللہ اسے خوش رکھے۔طائف کی چڑھائی چڑھ کر وقت نماز آیا تو کہنے لگا اخوة شودری ازن اور میں نے طائف کی ہداء کی چڑھائی پر اذان دی۔بے شمار بندر جو انسانی قدو قامت کے تھے کہ درمیان دی گئی اذان نہیں بھولتی۔جماعت کے لئے آگے کھڑا ہوا تو اکیلے مقتتدی کے ساتھ تھا لیکن سلام پھیرا تو کوئی پچاس کے قریب مقتتدی پائے۔عرب با جماعت نماز کے قائل ہیں اکیلا عرب بھی ہو گا تو اقامت کہہ کر نماز شروع کرے گا۔میں اس بدو کے غصے کو نہیں بھلا سکتا جب میں ابہا سے نجران اپنے بیٹے کے کفیل کے پیچھے گیا تو ایک اجاڑ سی مسجد میں وہ نماز پڑھ رہا تھا میں نے اپنی الگ سے پڑھی تو بہت غصے میں آگیا۔بڑی مشکل سے جاں خلاصی ہوئی۔
سعودی عرب میں دین کی اصلاح حالیہ برسوں میں ہوئی ہے۔چالیس سال پہلے وہاں حفاظ کرام نہ ہوا کرتے تھے۔تراویح کی نماز قران ہاتھ میںلے کر پڑھا کرتے تھے۔وضو والی جگہ میں ہی حاجت خفیفہ کرتے۔وہیں استنجہ کرتے اور وہیں وضو۔پاکستانیوں نے امام حرم ۔عبداللہ بن سبیل کو قرات سکھائی۔قاری ایوب کی قرات مشہور زمانہ ہے،مسجد نبوی میں پچھلی بار تراویح ایک آزاد کشمیری نوجوان نے پڑھائی ہیں۔قاری عبدالروئف کے بیٹے ہیں۔اللہ اکبر وہ اذانیں۔
Load/Hide Comments