وہ ہلدی گرم دودھ میں شامل کر کے لائی تھی ۔ وہ نزلہ زکام میں مبتلا تھا۔ وہاںان کے بڑے بھائی بھی موجود تھے۔ انہوں نے گھریلو قسم کا علاج کرتے دیکھاتو کہنے لگے کہ معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ تم لوگوں نے بیرون ملک کی ڈگری حاصل ہی نہیں کی ہے ورنہ بھلا آج کل کون ایسا دیسی علاج کرتا ہے ۔اب تو انداز یہ ہے کہ نزلے کے آثار محسوس کرتے ہی ڈاکٹر سے رجوع کر لیا جاتا ہے اور وہ لوگ جو مراعات یافتہ ہیں، انہیں معمولی بیماری تو دو رکی بات، ذرا سی چھینک بھی آجائے تو بیرون ملک کی راہ لیتے ہیں۔تم لوگوں نے تو ترقی یافتہ ممالک کی ترقی سے کوئی سبق نہیںسیکھا۔ وہاں تو جو لوگ جاتے ہیں، ویسے ہی بن جاتے ہیں۔آخراس دور جدید میں تم لوگوں کو قدیم طب میں دلچسپی کیوں ہے ؟
وہ کہنے لگا کہ میں بھی آپ جیسی سوچ رکھتا تھا لیکن جب میں نے بیرون ملک وقت گزارااور وہاں کے عام لوگوں کا تبصرہ سننے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ان کا عام طور پر یہی سوال ہوتا ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں قدرت نے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں، جہاں کے لوگوں کی ذہانت سے ایک دنیا مرعوب ہے ۔ وہاں کے لوگ بیرون ملک دنیا بہترین جگہوں پر رہائش رکھتے ہیں تو ان کے اپنے عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں ہیں؟آپ کے ملک میں کوئی ایسا اسپتال کیوں موجود نہیں جہاں آپ کا علاج ہو سکے ؟ کیا آپ اپنے زرعی ملک کی زمین کو بنجر بنا کر اپنا گھر سجانے میں ہی عقل مندی سمجھ رہے ہیں؟
بڑے بھائی حیرت سے پوچھ رہے تھے کہ کیا وہ لوگ ہمارے ملک کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات رکھتے ہیں؟
وہ اپنے بھائی کو بتانے لگا کہ ہم نے اپنے آپ کو بہت انڈر ایسٹیمیٹ کر رکھاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے طلبا کی ذہانت کا بیرونی ممالک کی ترقی میں اہم کردار ہے ۔ وہ کہنے لگی کہ بس ہمارا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ہم زندگی بھراپنی انفرادی حیثیت میں ترقی کو ہی اپنا ہدف بنائے رکھتے ہیںجبکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہم سب اجتماعیت کی بہتری کے لئے کوششیں کریں۔ اس طرح ہر ایک اپنی بہتری کے لئے مثبت کردار ادا کرے گا۔
بھائی کہنے لگے کہ کام کرنے کے لئے تو عہدہ بھی درکار ہوتا ہے اور 5سال کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لئے انتخابات بھی لڑنے ہوں گے۔یہ ایسا جنجال ہے جس میں کامیابی کے لئے دستیاب نسخہ ایک ارب کا ہے ۔
وہ اپنے بھائی کی بات سن کر خاموش رہاکیونکہ وہ اس معاملے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔اس کا تو اپنا یہی خیال تھا کہ جو جہاں بھی ہے ، جس حیثیت میں ہے ، اسے اپنی وسعت میں رہ کراپنا کام کرتے رہنا چاہئے ۔ اس کی یہی کاوش اجتماعیت بن کر ریاست کی ترقی کا سبب بن جائے گی ۔
وہ اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف رہتا تھا ۔ ان میں اپنے علاقے کے لوگوں کو مفت تعلیم کی سہولت بہم پہنچانا شامل تھا ۔ اس کے اس کام میں وہ بھی اپنا حصہ ڈالتی تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ ایک تعلیم یافتہ ماں، ایک بہترین نسل کی بنیاد رکھ سکتی ہے ۔ اسی لئے اس نے اپنی زمین پر کام کرنے والوں کے لئے لازمی قرار دیا تھا کہ 4دن کام کرو اور 3دن پڑھائی کرواور شہر جا کر امتحان دے دو۔ اسطرح جوکوئی نوکری پیشہ ہو یا زراعت کے شعبے سے تعلق رکھتا ہو، ہر ایک تعلیم یافتہ ہو کر اپنی ریاست کا بہترین شہری بن سکے گا۔اس میں عو ام کی خدمت کا جذبہ دیکھ کر اس کے گاﺅں کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں ایسے ہی ایماندار رہنما کی ضرورت ہے اور اس کے لئے کوئی اشتہار لگانے کی بھی ضرورت نہیں۔ اس کا اپنے لوگوںکو وقت دینا اور اپنی صلاحیتوں سے ان کو فائدہ پہنچانا ہی اس کے مخلص ہونے کی دلیل ہے ۔
٭٭جاننا چاہئے کہ ایمانداری اور راست گوئی انسان کو معتبر بناتی ہے ۔
Load/Hide Comments