‘پاوں بچا کر چلتی ہوں، کہیں چنار کے پتے پر نہ پڑ جائے’

تحریر: الوبہ ریاض

چنار کا درخت سب سے زیادہ کشمیر میں پایا جاتا ہے جسکی وجہ سے چنار کے پتے کو کشمیر کی پہچان بھی مانا جاتا ہے۔

اپنے وطن سے دور، چناروں کے سائے سے دور، انجان شہر میں چنار کا درخت دکھائی دے تو اس سے ہمدردی سی ہونے لگتی ہے۔ جیسے کہ یہ بھی میری طرح اپنے علاقے سے دور اور اپنے لوگوں سے جدا ہے۔

میری یونیورسٹی اسلام آباد شہر میں واحد جگہ ہےجہاں چنار کے درخت پائے جاتے ہیں۔ جب بھی میں ان چناروں کے سائے میں ہوتی ہوں تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کسی اپنے نے آغوش میں لے لیا ہو۔

میں جب بھی انہیں دیکھتی ہوں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ وطن سے دور، انجان شہر میں چنار کے سائے تلے ہوں۔

خزاں کے موسم میں جب سب پتے درختوں سے جھڑ کر زمین پر بکھرے رہتے ہیں جن پر چلنے سے ایسا ساز پیدا ہوتا ہے جو روح کے لیے سکون کا باعث بنتا ہے۔

ایسے میں جب میں یونیورسٹی میں موجود ہوں تو اپنے پاوں بچا بچا کر اور دیکھ کر چلتی ہوں کہ کہیں میرے چنار کا پتہ میرے پاوں کے نیچے نہ آ جائے۔ کہیں اسے میں کچل نہ ڈالوں۔ جیسے ظالم میرے ہم وطنوں کو کچلتا ہے۔ کچلنے کے بعد جو خاموشی طاری ہوتی ہے مجھے اس سے نفرت ہے کیونکہ دنیا بھی میرے مظلوم اور معصوم کشمیریوں کے کچلے جانے کے بعد خاموش رہتی ہے۔

میں بس اپنے چنار کی سلامتی چاہتی ہوں ۔ چنار میری پہچان ہے۔ میرے وطن کی پہچان، میرے کشمیر کی پہچان ۔
یا اللہ میرے وطن پر آئے خزاں جیسے زوال کو آزادی جیسی بہار میں بدل دے۔
آمین۔

میں خزاں کے موسم میں کشمیر میں مر جاؤں گا
تم میری قبر کو چنار کے پتوں سے سجانا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں